1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسداد دہشت گردی کی فوجی عدالتیں: پاکستانی قانون کی مدت پوری

مقبول ملک
7 جنوری 2017

پاکستان میں اس دو سالہ قانون کی مدت ہفتہ سات جنوری کے روز پوری ہو گئی، جس کے تحت ملک میں انسداد دہشت گردی کی خاطر سویلین ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لیے خفیہ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2VSQS
Reporter besuchen die Schule in Peschawar 17.12.2014
پاکستان میں ان فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ پشاور اسکول حملے کے بعد ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ سات جنوری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملک میں فوجی عدالتوں کے طور پر جن ملٹری ٹریبیونلز کا احاطہ یہ قانون کرتا تھا، وہ خاصے متنازعہ تھے، خاص طور پر اس لیے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی جاتی تھی۔

Deutschland Galgen im Neanderthal Museum Mettmann
ان فوجی عدالتوں کی طرف سے مجموعی طور پر 12 مجرمان کو پھانسی دی گئی اور 149 دیگر کو سزائے موت کا حکم سنایا گیاتصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch

ان فوجی عدالتوں کی طرف سے مجموعی طور پر 12 ملزمان کو پھانسی دی گئی اور 149 دیگر ملزمان کو مجرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں ان خفیہ فوجی عدالتوں کا قیام 2014ء میں پشاور میں ایک اسکول پر ہونے والے ایک بہت ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کے بعد عمل میں آیا تھا۔

تب وفاقی حکومت نے ان عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ایک آئینی ترمیم کے بعد کیا تھا اور اس اقدام کی وجہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کہلانے والے تعلیمی ادارے پر وہ خونریز حملہ بنا تھا، جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں اکثریت بچوں کی تھی۔

آج ہفتے کے روز جب دو سال کے محدود عرصے کے لیے نافذکیے گئے اس قانون کی مدت پوری ہوئی تو حکومت کی طرف سے تب تک یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آیا وہ اس قانون میں ممکنہ توسیع کرتے ہوئے آئندہ بھی انسداد دہشت گردی کی ان فوجی عدالتوں کو کام کرتے رہنے دینا چاہتی ہے۔

اس موضوع پر اپنے ایک تجزیے میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جب دو سال قبل ان فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا تو وجہ ایک ایسا استثنائی اقدام تھا، جس کی مدد سے وفاقی حکومت ملک میں دہشت گردانہ جرائم کے خلاف نظام انصاف میں محدود مدت کے لیے اصلاحات لا سکے۔

Parlamentsgbäude in Islamabad Pakistan
دو سال کے لیے ان فوجی عدالتوں کا قیام وفاقی پارلیمان میں ایک آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عمل میں آیا تھاتصویر: AP

لیکن ان ملٹری کورٹس کے قیام کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں نے زیادہ شفافیت کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ عدالتیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کے کم از کم معیارات پر بھی پورا نہیں اترتی تھیں۔

اس سلسلے میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) نامی تنظیم نے جمعہ چھ جنوری کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان فوجی عدالتوں کے قیام کے ساتھ ملکی نظام انصاف میں اصلاحات کی حکومتی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں اور مستقبل میں انسداد دہشت گردی کے لیے چلائے جانے والے مقدمات زیادہ منصفانہ اور قابل اعتماد ہونا چاہییں۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی حکومت کو ان خفیہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ایسے کسی قانون کی دوبارہ منظوری یا نفاذ سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں