1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امید ہے آپ کا چال چلن درست ہو گا‘، نئے سال کا پیغام

افسر اعوان30 دسمبر 2015

بھارت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے یا انہیں ستانے والے چھ لاکھ مردوں کو پولیس کی طرف سے نئے سال کے موقع پر ایک ایس ایم ایس پیغام بھیجا جا رہا ہے۔ اس پیغام کا مقصد انہیں یہ بتانا ہے کہ وہ پولیس کی نظروں میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HWAp
تصویر: UNI

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اُتر پردیش کی پولیس کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغام کا متن ہے، ’’آپ اور آپ کا فون ابھی تک پولیس کی نگرانی میں ہے۔ امید ہے آپ کا چال چلن اب درست ہو گا۔ ہماری طرف سے خوشیوں بھرے نئے سال کے لیے نیک تمنائیں۔‘‘

یہ پیغام ’خواتین کو ستانے والوں‘ یا Eve-teasers کو جمعرات 31 دسمبر کو بھیجا جائے گا۔ جنوبی ایشیا میں یہ اصطلاح خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اترپردیش پولیس کے سینیئر افسر ناونیت سیکیرا کے مطابق، ’’خواتین کو ستانے والوں یا بیہودہ کالیں کرنے والے افراد کو یہ پیغام بھیجنے کا مقصد انہیں یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے۔ یہ ایک طرح سے احتیاطی اقدام ہے۔ ہم انہیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کی طرف سے خواتین کو ہراساں کرنے یا ان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کسی کوشش کا فوری اور سخت ردعمل سامنے آئے گا۔‘‘

خواتین کو ستانے والوں یا بیہودہ کالیں کرنے والے افراد کو یہ پیغام بھیجنے کا مقصد انہیں یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہے
خواتین کو ستانے والوں یا بیہودہ کالیں کرنے والے افراد کو یہ پیغام بھیجنے کا مقصد انہیں یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا ریکارڈ پولیس کے پاس موجود ہےتصویر: Indranil Mukherjee/AFP/Getty Images

اترپردیش میں پولیس کی جانب سے خواتین کے لیے قائم کی گئی ٹیلیفون ہیلپ لائن کی سربرالہی بھی سیکیرا کے سپرد کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ لاکھ ایسی خواتین کو بھی ایس ایم ایس پیغام بھیجا جائے گا جنہوں نے ہراساں کیے جانے کے خلاف شکایات کی ہیں۔ انہیں پیغام بھیجنے کا مقصد یہ یقین دلانا ہے کہ بوقت ضرورت پولیس ان کی مدد کرنے کو ہر وقت موجود ہے۔‘‘

اُتر پردیش بھارت کا سب سے گنجان آبادی والا صوبہ ہے جہاں ملک کی 1.2بلین کُل آبادی میں سے 200 ملین آباد ہیں۔ بھارت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانا ایک بڑا مسئلہ ہے اور ملک میں ہونے والے مختلف تہواروں اور نئے سال کی تقریبات کے دوران اس طرح کے واقعات عام طور پر دیکھے جاتے ہیں۔