1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدارتی الیکشن، ٹرمپ اور کلنٹن بھرپور جوش میں

عابد حسین
6 نومبر 2016

امریکی صدارتی الیکشن کی انتخابی مہم اب قریب الاختتام ہے۔ الیکشن سے دو روز قبل صدارتی امیدواروں ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے زیادہ سے زیادہ ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر اپنی اپنی مہم میں تبدیلی پیدا کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2SESV
USA Poster / Transparente zu Präsidentschaftswahlen
تصویر: Imago/Agencia EFE

امریکی صدارتی الیکشن کے لیے رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل ہے۔ اس جائزے میں عوامی رائے کے مطابق 47 فیصد سابق وزیر خارجہ اور خاتون اول ہلیری کلنٹن کو بطور صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں 44 فیصد ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ یہ انتخابی جائزہ واشنگٹن پوسٹ اور امریکن براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے مشترکہ طور پر  عوامی آراء سے مرتب کیا ہے۔

انتخابی مہم کے آخری ایام میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ اِن ریاستوں کے ووٹرز کو اپنے حق میں کریں جہاں ڈیموکربیٹک پارٹی کا بھاری ووٹ بینک ہے۔ ان میں خاص طور پر کیلیفورنیا، میساچوسٹس، میری لینڈ اور مینیسوٹا وغیرہ شامل ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی حامی سولہ ریاستوں کے الیکٹورل ووٹس 200 بنتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ یقینی طور پر کلنٹن کے حق میں جائیں گے۔ دوسری جانب الاباما، ارکنساس، انڈیانا اور اوکلاہوما سمیت اٹھارہ ریاستوں کو ریپبلکن پارٹی کا ووٹ بینک قرار دیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں کے 144 الیکٹورل ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو حاصل ہوں گے۔

USA Hillary Clinton Wahlkampf North Carolina
ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹنتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo

کولوراڈو، میشیگن اور نیواڈا سمیت چھ ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں اور یہاں کے 74 الیکٹورل ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح ریپبلکن پارٹی کی جانب مائل ریاستوں میں الاسکا اورایریزونا سمیت پانچ ریاستیں ہیں اور ان کے 46 ووٹ بٹ سکتے ہیں۔ ایسی ریاستیں اور بعض ریاستوں کے کچھ مقامات پر دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جبکہ ان کے 74 ووٹ تو یقینی طور پر تقسیم ہو جائیں گے۔ ان الیکٹورل ووٹس کے تناظر میں دیکھا جائے تو کلنٹن کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔

امریکی صدارتی الیکشن پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ منگل کے الیکشن سے قبل ہلیری کلنٹن ہر ممکن طریقے سے اپنی معمولی سے ’وننگ‘ برتری کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اس مناسبت سے انہوں نے اس ویک اینڈ پر کیٹی پیری اور بیونسے کے میوزیکل کنسٹرٹس کا اہتمام کیا۔ دوسری طرف ان آخری دو ایام میں ٹرمپ کئی ایسی ریاستوں کا طوفانی دورہ کر رہے ہیں جہاں پر کلنٹن کو برتری حاصل ہے۔

USA Donald Trump Wahlkampf North Carolina
ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo

ماہرین کا خیال ہے کہ کلنٹن کی معمولی برتری نے ارب پتی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کو بےچینی میں مبتلا رکھا ہے اور ایسے میں نیواڈا کے مقام رینو میں ٹرمپ فوری طور پر کچھ دیر کےلیے  اسٹیج سے ہٹ گئے اور اس کی وجہ حاضرین میں سے کسی جانب سے ٹرمپ پر بندوق سے فائر کرنے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے ایک کارکن نے اس عمل کو ’قاتلانہ حملے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی خفیہ ادارے کے ایجنٹوں کو رینو کے انتخابی جلسے سے کوئی ہتھیار دستیاب نہیں ہوا۔ اِس واقعے کا کلنٹن کی انتخابی ٹیم نے خاصا مذاق اڑایا ہے۔

آخری اڑتالیس گھنٹوں میں کلنٹن اور ٹرمپ کے درمیان مقابلہ مزید سخت ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس کا اندازہ حریفوں کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیموں کو بخوبی ہے۔ ٹرمپ اپنے زوردار خطاب سے ان ایام کے دوران ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں ہیں تو کلنٹن کا متین انداز ووٹرز کے لیے یقینی طور پر کشش کا حامل ہو سکتا ہے۔