1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ، ’حقائق کی عکاس‘ قرار

عبدالستار، اسلام آباد
21 مارچ 2023

انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی مبصرین نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس رپورٹ کو حقائق کے قریب قرار دیا ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں میں کئی معاملات پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4P1Q6
Pakistan Proteste
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

ان کارکنان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لے اور جو عوامل  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے موجب بن رہے ہیں، ان کو ختم کرنے کی کوشش کرے۔

واضح رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پیر 20 مارچ کو 198ممالک اور علاقوں کے لیے علیحدہ علیحدہ سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔

اس رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے بھی تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے تناظر میں جن مسائل کا تذکرہ اس رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے کیا گیا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں ماورائے عدالت قتل،  جبری گمشدگیاں،  غیر انسانی سلوک، جیلوں کی حالت زار، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، بلاجواز گرفتاریاں، تشدد، اظہار رائے کی آزادی پر قدغنیں اور سول سوسائٹی پر پابندیوں سمیت کی انسانی حقوق کی دیگر کئی خلاف ورزیوں کی نشاہدی کی گئی ہے۔

’رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے‘

پاکستان میں حال ہی میں احمدی کمیونٹی کے حقوق کی پامالی پر کئی حلقے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ ہندو لڑکیوں کی جبری شادیاں، مسیحی اور دوسری اقلیتوں کے خلاف توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال اور بلوچستان، سندھ اور کے پی میں جبری گمشدگیاں بھی کئی بین الاقوامی تنظیموں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اصلاحات کی کوشش کرنا چاہیے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سینٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ حقائق کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ رپورٹ گلوبل گورننس کا حصہ ہے اور اس رپورٹ کے مندرجات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کچھ کچھ نکات کو جیسے کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی وغیرہ کو مزید اس میں جگہ ملنی چاہیے تھی۔ لیکن پھر بھی یہ ایک جامع رپورٹ ہے جس کو حکومت کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔‘‘

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جدید دنیا میں مختلف ممالک اور ادارے انسانی حقوق کی بین الاقوامی رپورٹوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنی پالیسیاں طے کرتے ہیں۔

ان کے خیال میں ایسی رپورٹیں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے بھی اہم ہوتی ہیں کیوں کہ جمہوری ممالک میں ارکان پارلیمنٹ اس طرح کی رپورٹس اٹھا کر اپنی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ موجودہ حالات میں پاکستان کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسی رپورٹوں کو نہ صرف اقوام متحدہ کے مختلف ادارے اور یورپی یونین اہمیت دیتے ہیں بلکہ دو طرفہ تعلقات میں بھی ان رپورٹ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر امریکی کانگریس میں کوئی بھارتی نواز کانگریس رکن ہے تو وہ اس رپورٹ کا سہارا لے کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔‘‘

کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟

سرفراز خان کے مطابق بالکل اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں بھی مختلف لابیاں کام کرتی ہیں اور ''کوئی بھی پاکستان مخالف لابی، ان رپورٹس کا سہارا لے کر پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔ لہذا اسے امریکی پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں مذہبی اور قومی اقلیتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی گزشتہ کئی برسوں سے نشاندہی کرتی آ رہی ہیں جبکہ صحافتی تنظیموں نے 2022ء میں کئی ایسی قدغنوں کا تذکرہ کیا جو انسانی حقوق کے خلاف رہی ہیں۔

سرفراز خان کا خیال ہے کہ حکومت کو اصلاحات کا عمل شروع کرنا چاہیے: ''جبری طور گمشدہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے۔ فوجی آپریشنز ختم ہونے چاہییں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کا مؤثر تحفظ ہونا چاہیے۔‘‘

رسمی کارروائی

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس طرح کی رپورٹوں کی ممالک کے درمیان تعلقات میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ بین الاقوامی امور کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ خود دنیا کے دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی اتنی خلاف ورزی کر چکا ہے کہ اب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے آنے والی اس طرح کی رپورٹوں کو کئی ممالک سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں کہ امریکہ اس کو ایک پریشر کے آلے کے طور پر استعمال کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بین الاقوامی قانون میں ایک نکتہ ریاستوں کے اقتدار اعلٰی کا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک اس نقطے کو لے کر انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں کیا انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے؟

ڈاکٹر بکارے نجم الدین کے مطابق کیونکہ امریکہ نے خود عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے اس کے پاس اخلاقی اتھارٹی نہیں کہ وہ دوسرے ممالک کو لیکچر دے: ''تاہم میرے خیال میں امریکہ پاکستان پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے یا بین الاقوامی فورم پر حمایت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔‘‘

واشنگٹن پاکستان سے تعلقات کے دوران اکثر وبیشتر مختلف بین الاقوامی اور ملکی رپورٹوں کا حوالہ دیتا رہا ہے، جسے اسلام آباد مسترد کرتا رہا ہے اور امریکہ پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حیسن پیرزادہ سے ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔