1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ روس تعلقات کا ایک نیا باب

رپورٹ: عابد حسین ، ادارت: کشور مصطفیٰ7 جولائی 2009

امریکی صدر اوباما کا موجودہ دورہٴ روس منگل کو ختم ہو جائے گا۔ اُن کا دورہ روس امریکہ تعلُقات میں ایک نئے عہد کی شروعات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/IiTo
امریکی اور روسی صدورتصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما اور انکے روسی ہم منصب میدویدیف نے ماسکو میں پیر کے روز ہونے والی اپنی ملاقات کو مثبت اور تعمیری قرار دیا ہے۔ باراک اوباما اور میدویدیف نے اس تاریخی ملاقات کے آغاز پر ہے کہ دیا تھا کہ وہ روس امریکی تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے نتائج اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں۔

پیر کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والے دونوں راہنماء کا انداز نہایت دوستانہ اور ایک دوسرے کی طرف احترام سے بھرپور نظر آ رہا تھا۔ اس موقع پر روسی صدر اور باراک اوباما کے میزبان میدویدیف نے کہاکہ میں ابتداء ہی میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہماری بات نہایت کھلے ماحول میں اور فائدہ مند رہی۔ بلا شبہ اس ملاقات سے ہمارے ملک اورامریکہ میں بھی یہی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ یہ نا صرف امریکہ اور روس کے مستقبل بلکہ تمام دنیا کی ترقی کے لئے فیصلہ کن ثابت ہوگا۔

Obama in Moskau Flash-Galerie
روسی اور امریکی صدور کریملن میں میٹنگ ہال میں داخل ہوتے ہوئے۔تصویر: AP

امریکہ اور روس ایک بار پھر تمام دنیا کے لئے ایک مثال یا ایک رول ماڈل بننا چاہتے ہیں۔ خاص طور سے جوہری اسلحہ کی تخفیف کے ضِمن میں۔ امریکی اور روسی صدور کے مابین تخفیف اسلحے سے متعلق اتفاق کے تحت اگلے سات سالوں میں دونوں ملکوں میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد سترہ سو سے کم ہوجائے گی نیز اسلحہ بردار راکٹوں کی تعداد بھی 5 سے 11 سو کے درمیان ہوگی۔

روس اور امریکہ افغانستان میں بھی اشتراک عمل کے خواہاں ہیں۔ امریکہ کو مسقبل میں اسلحہ جات اور فوج کی ٹرانسپورٹ کے لئے روسی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ روس کی طرف سے اس خوش کن رویے کا اظہار ماسکو میں دونوں صدور کی ملاقات سے پہلے ہی کیا گیا تھا۔ امریکی صدر اوباما کے لئے یہ ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل قدم ہے، خاص طور سے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ کے تناظر میں۔ اوباما نے کہا کہ عالمی سیاست کی نسبت روس کا یہ اقدام غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ امریکہ کو وقت اور ذرائع کی بچت میں مدد دے گا۔ ہمارے فوجیوں کے لئے یہ ایک بڑی سپورٹ ہے ، جس کی کہ انہیں ضرورت ہے۔

Dmitri Medwedew bei Gespräch mit Wladimir Putin zu Georgien Südossetien
روسی صدر اور وزیر اعظم ولادی میر پوٹینتصویر: AP

روس اور امریکہ بہت سے دیگر شعبوں میں بھی اشتراک عمل چاہتے ہیں تاہم چند امور پر واشنگٹن اور ما سکو کی درمیان دُوری ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ مثلاً ایران سے متعلق پالیسی پر دونوں کے درمیان اتفاق نہیں پایا جاتا اور اسی طرح جارجیا کے سرحدی تنازعے کے بارے میں دونوں کا موقف مختلف اور واضح نہیں ہے۔ اسکے علاوہ پولینڈ اور چیک جمہُوریہ میں امریکی میزائیل ڈیفنس نظام کی تنصیب کے متنازعہ مسئلے کے موضوع پر بھی دونوں ملک اپنے اپنے موقف پر ہی اڑے ہوئے ہیں اور اس تاریخی ملاقات میں یہ موضوع خاطر خواہ طریقے سے زیر بحث نہیں آیا۔

دریں اثناء جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے روس اور امریکہ کے مابین نیوکلیائی ہتھیاروں میں کمی سے متعلق مفاہمت کےمشترکہ اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے اسے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کی ایک نئی اسپیریٹ سے تعبیر کیا۔ برلن جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کئے جانے والے بیان میں اشٹائن مائر نے کہا کہ اسلحے کا دور اب ماضی بن چکا ہے۔ آج کے نئے دور میں تخفیف اسلحہ کی ایک کوششوں کو مشترکہ بنانے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ اور روس کے صدور نے اس مشترکہ مفاہمت پر دستخط کر کہ یہ ثابت کردیا ہے کہ دونوں جوہری طاقتیں Non Proliferation Treaty یا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی شق نمبر 6 کے تحت تخفیف اسلحہ سے متعلق اپنے اپنے فرائض کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے اگلے سال NPT سے متعلق مجوزہ کانفرنس کو ایک مثبت سگنل ملا ہے۔ اشٹائن مائر نے جوہری اسلحوں کی تخفیف سے متعلق پالیسیوں کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔