1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا اور تائيوان کے باہمی تعلقات، چين کا درد سر کيوں؟

عاصم سلیم
9 جنوری 2017

تائيوان کی خاتون صدر تسائی انگ ون کی امريکی ری پبلکن رہنماؤں کے ساتھ حاليہ ملاقات چين کے ليے شديد بے چينی کا سبب بن رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2VWd0
Taiwan Tsai Ing-wen
تصویر: picture alliance/Presidential Office Handout

چينی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ کے اتوار کے روز چھپنے والے ايک اداريے ميں لکھا ہے کہ ’ايک چين‘ کی پاليسی پر چلنا بيجنگ حکومت کی کوئی درخواست نہيں بلکہ واشنگٹن اور بيجنگ حکومتوں کے باہمی تعلقات و ايشيا پيسيفک خطے ميں طاقت کے توازن کے ليے امريکی صدور کی ذمہ داری ہے۔ چين کا يہ با اثر اخبار حکمران کميونسٹ پارٹی کے ’پيپلز ڈيلی‘ کے ايک حصے کے طور پر شائع ہوتا ہے۔ ’گلوبل ٹائمز‘ کے اس اداريے ميں مزيد لکھا ہے، ’’اگر ٹرمپ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ايک چين پاليسی پر عملدرآمد جاری نہيں رکھتے، تو چينی عوام اپنی حکومت سے مطالبہ کريں گے کہ وہ اس کے رد عمل ميں کچھ کرے۔‘‘

تائيوان کی صدر تسائی انگ ون نے گزشتہ روز امريکی ری پبلکن جماعت کے ايک سينیئر قانون ساز سے ملاقات کی۔ وہ در اصل وسطی امريکی ممالک کے دورے پر ہيں۔ امريکا ميں مختصر وقت کے لیے انہوں نے يہ ملاقات کی۔ اب وہ واپسی پر تيرہ جنوری کو سان فرانسسکو ميں دوبارہ قيام کريں گی۔ ٹيکساس کے گورنر گريگ ايبٹ نے تسائی انگ ون کے ساتھ اپنی ايک تصوير ٹوئيٹ کی، جس ميں امريکا اور تائيوان کے پرچم دکھائی دے رہے ہيں۔ تائيوانی صدر نے ٹيکساس کے سينيٹر ٹيد کروز سے بھی ملاقات کی۔ قبل ازيں نو منتخب امريکی صدر نے گزشتہ ماہ تسائی انگ ون سے ٹيلی فون پر بات کر کے بيجنگ کو کافی ناخوش کيا تھا۔

بيجنگ حکومت نے واشنگٹن سے درخواست کی تھی کہ ’ايک چين‘ پاليسی کو مد نظر رکھتے ہوئے تسائی انگ ون کو امريکا ميں داخلے کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی باقاعدہ سرکاری ملاقات کی جائے۔ اس کے رد عمل ميں سينيٹر کروز کا کہنا ہے کہ چين کو يہ سمجھنا چاہيے کہ امريکا ميں مہمانوں کے ساتھ ملنے يا نہ ملنے کے معاملات اس طرح بذات خود طے نہيں کيے جاتے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس کا تعلق چين کے ساتھ نہيں۔ اس کا تعلق امريکا کے تائيوان کے ساتھ تعلقات سے ہے، ايک اتحادی ملک کے حوالے سے ہميں اس کا دفاع کرنا ہو گا۔‘‘ ٹيد کروز کا مزيد کہنا تھا کہ اس ملاقات ميں تسائی انگ ون اور ان کے درميان باہمی تعلقات، تعاون ميں اضافے اور کاروباری معاملات پر بات چيت ہوئی۔

يہ امر اہم ہے کہ چين کو شبہ ہے کہ تسائی انگ ون تائيوان کی باقاعدہ آزادی کے نصب العین کا تعاقب کر رہی ہيں۔ خود مختار تائيوان کو چين آج بھی اپنا ايک حصہ تصور کرتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید