1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’الف لیلہ‘ کے جنسی اقتباسات تنقید کی زَد میں

1 مئی 2010

حال ہی میں مصر میں وکلاء کے ایک گروپ نے عدالت سے رجوع کیا ہے اور کہا ہے کہ صدیوں پہلے تخلیق ہونے والی کتاب ’الف لیلہ و لیلہ‘ عوام کے ذوقِ سلیم کو مجروح کرتی ہے، اِس لئے اِس پر پابندی لگائی جائے۔

https://p.dw.com/p/NCCi
تصویر: AP

’’حدود و قیود کے بغیر وکلاء کی ایسوسی ایشن‘‘ نامی اِس گروپ نے، جس میں دو خواتین اور آٹھ مرد شامل ہیں، 17 اپریل کو اپنی درخواست کی ایک نقل اٹارنی جنرل کو روانہ کی تھی اور اِس کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وکلاء محکمہء ثقافت کے چیئرمین احمد مجاہد کے ساتھ ساتھ ممتاز ادیبوں جمال الغطانی، جمال العسکری، سعد عبدالرحمٰن اور سُوزن عبدالرحمٰن سے پوچھ گچھ کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو کہانیوں کی اِس عظیم کتاب کے ایک نئے ایڈیشن کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں۔ وزارتِ ثقافت کے تعاون سے حال ہی میں دو جِلدوں کی شکل میں منظرِ عام پر آنے والا یہ ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہو چکا ہے۔

جمال الغطانی نے، جن کا ناول ’’تقدیر کی کتاب‘‘ کے نام سے جرمن زبان میں بھی شائع ہو چکا ہے، کہا ہے کہ وکلاء کا یہ اقدام ملک کے دانشور طبقے کے خلاف مہم کا ایک حصہ ہے۔ الغطانی کے مطابق اپنی اِس درخواست کے ذریعے یہ وکلاء ادب و ثقافت کی آبیاری کرنے والے تخلیق کاروں کو ہی نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ وہ حکومت کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے اور کسی ایک فریق کی حمایت کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ مصری وزیر ثقافت فاروق حسنی نے ایسا ایک وضاحتی بیان جاری بھی کر دیا ہے، جس میں اُنہوں نے وکلاء کے اِس مطالبے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔

Ägypten Kultur Buchmesse in Kairo
مصر میں سن 1985ء میں بھی اسلام پسندوں نے اِس کتاب کے لبنان سے شائع ہونے والے ایک باتصویر ایڈیشن پر پابندی عائد کروا دی تھیتصویر: AP

عالمی ادب کے اہم ترین شاہکاروں میں شمار ہونے والی کتاب ’الف لیلہ و لیلہ‘ یا ’ہزار داستان‘ خوبصورت کنیزوں، مہم جُو بادشاہوں اور چالاک تاجروں کی دلچسپ کہانیوں پر مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس کتاب کے ابتدائی حصے آٹھویں صدی میں لکھے گئے تھے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک بادشاہ اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہو کر عورت ذات ہی سے بدظن ہو گیا تھا۔ اِس کے بعد وہ روز ایک نئی شادی کرتا تھا اور اگلی ہی صبح اپنی بیوی کو قتل کروا دیتا تھا۔ خواتین کو اِس ظلم سے نجات دلانے کا بیڑا بادشاہ کے وزیر کی بیٹی شہرزاد اٹھاتی ہے، جو بصد اصرار بادشاہ کے ساتھ شادی کر لیتی ہے۔ پہلی ہی رات وہ بادشاہ کو ایک کہانی سناتی ہے، رات گزر جاتی ہے لیکن کہانی ختم نہیں ہوتی اور یوں بادشاہ اپنی اِس بیوی کو قتل کرنے کا ارادہ اگلی رات تک کے لئے ملتوی کر دیتا ہے۔ اگلی رات لیکن شہرزاد کہانی کو اور طول دے دیتی ہے اور یہ سلسلہ ایک ہزار اور ایک راتوں تک چلتا ہے۔ اِس دوران اُن دونوں کے دو بچے بھی ہو جاتے ہیں اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہتی ہے۔

یہ کتاب مسلم دُنیا میں اپنے جنسی اعتبار سے ہیجان انگیز تصور کئے جانے والے حصوں کی وجہ سے ہمیشہ ہی کچھ حلقوں کی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں اِس کتاب پر پہلے ہی پابندی عائد چلی آ رہی ہے۔ مصر میں سن 1985ء میں بھی اسلام پسندوں نے اِس کتاب کے لبنان سے شائع ہونے والے ایک باتصویر ایڈیشن کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، جس کے نتیجے میں اِس ایڈیشن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ایک سال بعد ہی لیکن یہ پابندی اٹھا لی گئی تھی۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : عاطف توقیر