1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ درست ہے، میرکل

شمشیر حیدر
8 اپریل 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ملک سے افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری میں اضافے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی سن 2015 میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے افغان تارکین وطن کو ملک بدر کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2av7V
Deutschland Bundeskanzlerin Angela Merkel in Berlin
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn

گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی میں ایک ملین سے زائد مہاجرین آ چکے ہیں۔ چانسلر میرکل نے ابتدا میں مہاجرین دوست پالیسی اختیار کی تھی تاہم حالیہ عرصے کے دوران تارکین وطن کے بارے میں انہوں نے سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

اس تبدیلی کی بظاہر وجہ رواں برس کے انتخابات ہیں جن میں میرکل چوتھی مرتبہ جرمن چانسلر بننے کی امیدوار ہیں۔ جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے بعد دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعتیں مہاجر مخالف نقطہ نظر رکھنے کے باعث تیزی سے مقبول ہو رہی تھیں۔

گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں برلن حکومت نے ایسے افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی تھیں۔ افغان مہاجرین کو واپس لے جانے والی پہلی خصوصی پرواز میں خاص طور پر ایسے پناہ گزینوں کو واپس بھیجا گیا تھا جو جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔

بی اے ایم ایف کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں شامی مہاجرین کے بعد افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تعداد دوسرے نمبر پر ہے۔

برلن میں مہاجرین کی مدد کرنے والی تنظیموں کی جانب سے منعقد کردہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چانسلر میرکل کا کہنا تھا، ’’یورپی یونین کے تمام دیگر رکن ممالک ایسے افغان مہاجرین کو واپس بھیج دیتے ہیں جنہیں ان ممالک میں سیاسی پناہ کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔‘‘

انہوں نے افغان صدر کو پیغام دیتے ہوئے کہا، ’’آپ ایسا تاثر نہ دیں کہ افغان اپنے ملک میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں ہم سب اپنی راہ کھو بیٹھیں گے اور ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو افغان فوج میں شامل ہو کر طالبان کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو۔‘‘

میرکل نے افغان مہاجرین کو جرمنی میں سیاسی پناہ دیے جانے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 55 فیصد افغان مہاجرین کو پناہ دی گئی جب کہ 45 فیصد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل حکومت خود اعتراف کر چکی ہے کہ جرمنی کا رخ کرنے والے سبھی افغان تارکین وطن کی زندگیوں کو افغانستان میں خطرات لاحق نہیں ہیں اور نہ ہی سبھی افغان غربت کے باعث جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب بھی ہر مہینے چودہ ہزار سے زائد افغان تارکین وطن جرمنی پہنچ رہے ہیں۔

جرمنی کی بعض وفاقی ریاستیں افغانستان میں سکیورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ میرکل کا کہنا تھا، ’’میں کسی ایک فرد واحد کو بھی واپس نہیں بھیجتی اگر جرمنی کو یقین ہو کہ افغانستان میں بسنے والے انتیس ملین افغان شہری ناقابل قبول صورت حال کا شکار ہیں اور وہ وہاں گزر بسر نہیں کر سکتے۔‘‘

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے