1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’افغان قیادت کا دوہرا رویہ‘

بینش جاوید
9 مئی 2017

افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے پاس پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نا ہی نیت۔ ان کے بقول جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہے گا وہ افغانستان کو نقصان پہنچائے گا۔

https://p.dw.com/p/2cgCt
Afghanistan Abdullah Abdullah mit pakistanischen Journalisten (Faheem Dashti)
تصویر: Office Chief Executive of the Islamic Republic of Afghanistan

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے پس منظر میں افغانستان کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کا ایک خوش آئند بیان سامنے آیا ہے۔ کابل میں پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا،’’جو پاکستان کو نقصان پہنچائے گا، وہ در اصل افغانستان کو نقصان پہنچائے گا۔‘‘

اس وفد میں شامل ايک پاکستانی صحافی خالد محمود نے کابل سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہماری ملاقات میں ان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک میں بد اعتمادی کو دور کرنا ہوگا۔‘‘ خالد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عبداللہ عبداللہ کے مطابق انہوں نے چیف ایگزیکیٹیو بننے کے بعد سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور داعش ایک حقیقت ہیں لیکن صرف افغانستان تنہا ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ خالد محمود کہتے ہیں کہ افغان چیف ایگزیکیٹیو نے مزيد کہا کہ اگر ان کا ملک بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا، تو کیا افغانستان میں موجود تقريباً چالیس ممالک کے نمائندگان کو معلوم نہیں ہو گا اور کیا وہ انہيں ایسا کرنے دیں گے؟

اس وفد میں شامل ایک اور پاکستانی صحافی بشیر چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو اپنے مشاہدے کے بارے میں بتایا،’’کابل کے بارے میں سنتے تھے کہ یہ ہمارا برادر اسلامی ملک ہے لیکن یہاں پہنچ کر احساس ہوتا ہے کہ آپ روایتی حریف ملک بھارت آئے ہوئے ہیں۔ افغان قیادت کھل کر پاکستان کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ پاکستان افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے لیکن افغان قیادت پاکستان سے خوش نہیں ہے۔ افغان قیادت میں یہ خواہش ضرور  ہے کہ کشیدگی کو مذاکرات کے ذریعےکم کیا جائے۔‘‘ بشیر چوہدری نے مزيد بتایا کہ ان کی سابق افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات ہوئی جس میں کرزئی نے کہا کہ وہ رمضان کے بعد پاکستان کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

پاک افغان تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی پاکستانی تجزیہ کار ماروی سرمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،’’ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ان خدشات کی جائز وجوہات ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کے میڈیا اور سیاسی حلقوں میں پاکستان مخالف جذبات نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ دو برسوں میں شدید سرحدی کشیدگی رہی ہے جس میں کئی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ پاکستان کو شک ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا معاملہ بڑھانے میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ دونوں حکومتیں بڑھتی کشیدگی کے جواب میں سرحد بند کر دیتی ہیں جس سے عام افراد کی مشکلوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘

گُوگل میپس کے ذریعے سرحدی تنازعہ حل کرنے کی کوشش

بشیر چوہدری کی رائے میں افغان قیادت کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ افغان طالبان کی قیادت پاکستان میں موجود ہے اور وہ وہاں سے افغانستان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ افغان قیادت پاکستان کا یہ الزام رد کرتی ہے کہ پاکستانی طالبان کے رہنما فضل اللہ افغانستان میں ہے اور وہاں سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کر رہا ہے۔ دوسری جانب تجزیہ کار ماروی سرمد پُر امید ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کامیاب نہیں ہوئی۔ جب روس نے امن عمل کے لیے کوششوں کا آغاز کیا تو ساتھ ہی امریکا میدان جنگ کو کابل کے قریب لے آیا۔‘‘ ماروی کی رائے میں افغانستان میں امن اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان، چین، افغانستان اور امریکا کے درمیان چار فریقی مذاکرات کا آغاز دوبارہ کیا جانا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اس عمل میں روس اور ایران  کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغان طالبان پر اپنا اثر ورسوخ بڑھاتے ہوئے انہیں افغانستان میں پر تشدد کاروائیوں سے روکنا ہو گا۔ طالبان اور دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

چمن میں افغان فورسز کی مبینہ فائرنگ