1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان انتخابات، دوسرے مرحلے کے امکانات

رپورٹ:عدنان اسحاق، ادارت: ندیم گل19 اکتوبر 2009

اس رپورٹ کا بہت شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا کیونکہ اس کے سامنے آنے کہ بعد صدر حامد کرزئی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے مابین صدراتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/KAa1
انتخابی کمیشن برائے شکایات کے رکن گرانٹ کاپنتصویر: DW

افغان صدارتی انتخابات کو دوماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تاہم ابھی تک سیاسی بحران کے ختم ہونے کی صورت نظر نہیں آ رہی۔ ان انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے بعد اقوام متحدہ کے جانب سے قائم کئے گئے کمیشن برائے شکایات نے آج اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انتخابی شکایات نے 210 پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے گئے ووٹ خارج کر دیے ہیں۔ اس رپورٹ کا بہت شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا کیونکہ اس کے سامنے آنے کہ بعد صدر حامد کرزئی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے مابین صدراتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن یہ بات ابھی بھی یقین سے نہں کہی جا سکتی کہ آیا حامد کرزئی مطلوبہ اکثریت کھو چکے ہیں یا نہیں؟

Afghanistan Wahlen Hamid Karsai Wahlplakat
تصویر: AP

انتخابی نتائج کے حوالے سے یہ رپورٹ شکایتی کمیشن ECC نے جاری کی ہے۔ کابل میں اقوا م متحدہ کے ایک ترجمان علیم صدیقی نے بتایا کہ اب شکایتی کمیشن کے احکامات سامنے آ گئے ہیں اوراقوام متحدہ کو یہ توقع ہے کہ ان کو جلد از جلد نافذ کرتے ہوئے انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے۔ یا پھر افغان آئین کے تحت اگرانتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت ہے تو اس کا بھی اعلان کیا جائے۔

اُدھر یورپی یونین نے کہا ہے کہ ضرورت ہو تو انتخابات کا دو سرا مرحلہ کرایا جائے۔ یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بلٹ کے مطابق ان انتخابات کا حصہ جو بھی رہا ہے، اسے کمیشن برائے شکایات کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر دوسرے مرحلے کی ضرورت ہے تو اسے ہونا چاہیے۔ اس سے قبل بلٹ نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لافروف سے بھی افغانستان کی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا تھا۔

افغان صدر حامد کرزئی کی انتخابی ٹیم نے الزام عائد کیا ہے کہ مغربی ممالک نے انتخابی نتائج کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ بیان شکایتی کمیشن کی جانب سے رپورٹ جاری کئے جانے کے چند گھنٹے پہلے ہی سامنے آیا تھا۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر کرزئی مطلوبہ اکثریت کھو چکے ہیں اورانہیں صداراتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کرزئی کے ایک مشیر محمد معین نے کہا کہ اس کمیشن کو مغربی ملکوں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے اوران کے نمائندے افغانستان میں کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ دِنوں امریکی روزنامے 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ انتخابات میں بعض حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے نتیجے میں صدر حامد کرزئی کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد پچاس فیصد سے کم ہو چکی ہے۔

افغانستان میں 20 اگست کو ہونے والے صدارتی انتخابات دھمکیوں، طالبان کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان اور دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے ایک تنازعے کی صورت اختیار کر گئے تھے۔ نتائج کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے افغانستان کو ایک غیر یقینی سیاسی صورتحال کا سامنا تھا۔ گزشتہ روز ہی فرانس کے وزیر خارجہ بیرنارڈ کوشنیرکی کوششوں کی وجہ سے کرزئی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان مفاہمت کے اشارے ملنا شروع ہوئے تھے۔