1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: مٹی کے گھروندے، زندگی بہت مشکل

24 ستمبر 2009

افغانستان کے عوام روز بروز بگڑتے ہوئے حالات سے بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پریشانی اور فکر مغربی افغانستان کے قصبے تقی نقی نامی میں بھرپور انداز سے دیکھی جا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/Jnqm
تصویر: AP

اس قصبے میں مٹی کے گھروندے کی طرح دکھائی دینے والے گھروں میں وہ افغان شہری رہائش پذیر ہیں، جنہوں نے پڑوسی ملک ایران کے کیمپوں میں میں کئی سالوں تک مہاجرین کی زندگی گزاری اور بالآخر ایک روز انہیں اپنے گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔

تقی نقی نای یہ قصبہ افغانستان میں طالبان کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے بعد بسایا گیا ہے۔ ملک کے مغربی صوبہ ء ہیرات میں اس فصبے میں وہ افغان شہری رہتے ہیں، جنہیں ایرانی حکام نے مہاجر کیمپوں سے واپس افغانستان بھیج دیا تھا۔ اس سب کے باوجود یہاں کے رہائشی اس قصبے میں نہیں رہنا چاہتے، کیونکہ یہ بڑے شہروں سے دور واقع ہے، جبکہ یہاں پر کھیتی باڑی کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔

Afghanische Flüchtlinge
تصویر: AP

تقی نقی کی ایک 38 سالہ رہائشی مینا یوسف کے مکان کی حالت دیکھنے سےتعلق رکھتی ہے۔ اپنی اس چھوٹے سے مکان میں، جس کی دیواروں پر افغان گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کی تصویریں لگی ہیں، وہ کپڑوں کی سلائی کرکے بہت مشکل سے اپنا گزارا کر پاتی ہیں۔ افغانستان میں اپنی زندگی کے بارے میں وہ کہتی ہیں: ’’ ہم یہاں واپس ہی نہیں آنا چاہتے تھے، کیونکہ یہاں بجلی ہے نا ہی زندگی کی دوسری بنیادی ضرورت کا انتظام۔ ہمیں ایران کے مہاجر کیمپوں میں یہ تمام سہولیات میسر تھیں۔‘‘

افغانستان میں گزشتہ دہائیوں میں جاری خانہ جنگی سے لے کر 2001 ء میں طالبان حکومت کے خاتمے تک ملک سے تقریبا آٹھ ملین شہری پڑوسی ممالک کو ہجرت کرگئے تھے۔ ایران میں آج بھی دس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین آباد ہیں، جبکہ پاکستان میں ان مہاجرین کی تعداد سترہ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔

Junge in Afghanistan mit Drachen
افغان مہاجرین کی حالت زارتصویر: AP

2002 ء سے 2008 ء کے درمیان ان میں سے پانچ ملین کے قریب مہاجرین کی اپنے آبائی ملک میں واپسی ہوئی۔ تاہم ان کے لئے بنانے گئے قصبوں میں بنیادی انسانی ضرویات تو درکنار، کسی بھی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

کابل میں اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی UNHCR کے ترجمان نادر فرہاد نے بتایا کہ پانچ ملین افغان مہاجرین پورے افغانستان کی آبادی کا بیس فیصد حصہ بنتے ہیں۔ ’’تاہم ان افغان مہاجرین کی زندگی میں اپنے گھروں کو واپسی بہت سی بہتر تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بہت سارے افغان شہریوں نے اپنی واپسی کے ملک مختلف شعبوں میں چھوٹی موٹی سرمایہ کاری کی ہے۔‘‘

دوسری طرف برسلز میں قائم انٹرنیشل سیکیورٹی گروپ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغان حکومت ملک میں واپس آنے والے اپنے شہریوں کو تحفظ اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے۔ رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کی ناکامی کے باعث افغان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار تک میسر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بے روزگار نوجوان کا طالبان کی صفحوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔

رپورٹ: انعام حسن

ادارت: عدنان اسحاق