1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’افغانستان ميں امريکہ کے معمولی اور قابل حصول اہداف‘

2 اگست 2010

امريکی صدر بارک اوباما نے سی بی ايس ٹيلی وژن کو انٹرويو ديتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان ميں امريکہ کے اہداف معمولی نوعيت کے ہيں جنہيں حاصل کرنا ممکن ہے

https://p.dw.com/p/OZvR
امريکی صدر بارک اوباما افغان صدر حامد کرزئی سے مصروف گفتگو، فائل فوٹوتصویر: AP

امريکی صدر بارک اوباما پر افغانستان کی مسلسل زيادہ غير مقبول ہوتی ہوئی جنگ کی وجہ سے شديد دباؤ ہے۔ اس دباؤ کے نتيجے ميں بھی امريکی صدر نے ٹيلی وژن اسٹيشن CBS کے ایک پروگرام Early Show ميں ایک انٹرويو ديتے ہوئے اس بات پر زور ديا کہ افغانستان ميں اُن کی حکومت کے اغرض و مقاصد بس معمولی نوعيت ہی کے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ان سادے اہداف کو پورا کرنا ممکن ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ کوئی بھی يہ توقع نہيں کرسکتا کہ افغانستان ميں امريکہ کی سرکردگی ميں جو کوششيں کی جا رہی ہيں، ان کے نتيجے ميں افغانستان کو ايک مغربی طرز کی مثالی جمہوريت ميں تبديل کيا جا سکتا ہے۔

Barack Obama in Afganistan
امريکی صدر اوباما افغانستان ميں امريکی فوجيوں کے ساتھ، فائل فوٹوتصویر: AP

امريکی صدر نے کہا: ’’ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہيں، وہ مشکل ہے۔ بہت ہی مشکل۔ ليکن يہ ايک بہت معمولی سا ہدف ہے، يعنی يہ کہ دہشت گردوں کو دنيا کے اس خطے سے کہيں اور کارروائی کرنے کی اجازت نہ دينا۔ اُنہيں بڑے تربيتی کيمپ قائم نہ کرنے دينا اور نڈر ہو کر امريکہ پر حملے کرنے کا موقع نہ دينا۔‘‘

اوباما نے کہا کہ يہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہيں اور ہم افغانستان کو کافی حد تک مستحکم بنا سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان سے بھی کافی حد تک تعاون حاصل کر سکتے ہيں اور اس طرح امريکی سرزمين کے لئے خطرات کو کم کر سکتے ہيں۔

امريکہ نے سن 2001 کے اواخر ميں افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کر ديا تھا کيونکہ امريکہ کا کہنا تھا کہ طالبان نے 11 ستمبر کو امريکہ ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے سب سے بڑے ملزم بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے قائدين کو پناہ دی ہوئی تھی۔ امريکہ ميں ان دہشت گردانہ حملوں ميں تقريباً 3000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس وقت افغانستان ميں مغربی ممالک کے تقريباً ايک لاکھ 50 ہزار فوجی تعينات ہيں۔ ليکن اس کے باوجود افغانستان پر امريکی حملے کے نو سال بعد بھی مغربی ملکوں کی حمايت سے قائم صدر حامد کرزئی کی حکومت کے خلاف طالبان کی بغاوت مسلسل زيادہ طاقتورہوتی جا رہی ہے۔

افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے لے کر آج تک جولائی کا مہينہ امريکی فوج کے لئے سب سے زيادہ خونریز مہينہ ثابت ہوا۔ امريکی فوجيوں کی ہلاکت ميں مسلسل اضافہ امريکی عوام کے صبر کا ايک کڑا امتحان ہے۔

David Petraeus amtübernahme in afghanistan
افغانستان متعین غیر ملکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاستصویر: AP

صدر اوباما نے CBS ٹيلی وژن کو دئے گئے اپنے انٹرويو ميں يہ بھی کہا: ’’اگر ميں يہ نہ سمجھتا کہ افغانستان ميں کارروائی کو تکميل تک پہنچانا ہمارے قومی مفاد کے لئے ضروری ہے، تو ميں فوج کو آج ہی واپس بلا ليتا کيونکہ مجھے مارے جانے والے ہر فوجی کے اہل خانہ کو لکھے جانے والے خط پر دستخط کرنا پڑتے ہيں۔‘‘

افغانستان کی جنگ کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے باوجود امريکی وزير دفاع رابرٹ گيٹس نے اس پر زور ديا ہے کہ صدر اوباما کے جولائی سن 2011 تک امريکی فوج کے محدود انخلا کے اعلان کے باوجود اس تاريخ کے بعد بھی امريکی فوجی بڑی تعداد ميں افغانستان ميں موجود رہيں گے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں