1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اس سال کس جرمن صوبے سے کتنے تارکین وطن ملک بدر ہوئے؟

شمشیر حیدر20 جولائی 2016

جرمنی میں ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کرنا، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہوں، ایک صوبائی معاملہ ہے۔ اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی سے تارکین وطن کی ملک بدری کے واقعات کی شرح میں واضح اضافہ دیکھا گیا۔

https://p.dw.com/p/1JSlz
Deutschland Abschiebung Polizei
تصویر: picture alliance/dpa/D. Maurer

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن کے ملک بدر کیے جانے کی شرح میں اضافہ نہ صرف جرمنی میں بلکہ اس کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ویانا حکومت مہاجرین کو جنگی ہوائی جہازوں میں سوار کرا کے ملک بدر کر رہی ہے۔

آسٹریا

آسٹرین وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2016ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران دو ہزار سے زائد تارکین وطن کو جبراﹰ ملک بدر کیا گیا۔ آسٹریا سے اس برس جبری ملک بدریوں کی شرح میں پچھلے سال کی نسبت 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے وطن لوٹ جانے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی 24 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران کل 3200 مہاجرین اپنی مرضی سے آسٹریا سے واپس چلے گئے۔

جرمن صوبے: سیکسنی

گزشتہ سال کی نسبت اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران جرمن صوبے سیکسنی سے مہاجرین کی ملک بدری میں چار گنا اضافہ دیکھا گیا۔ سیکسنی سے اس سال جنوری سے جون تک سوا دو ہزار تارکین وطن کو واپس ان کے ملکوں میں بھیج دیا گیا۔ ڈی پی اے کے ایک سروے کے مطابق جرمنی سے پناہ گزینوں کو نہ صرف ملک بدر کیا جا رہا ہے بلکہ رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے وطن لوٹنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

[No title]

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا

جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (NRW) سے غیر ملکیوں کے ملک بدر کیے جانے کی شرح میں اس سال تیس جون تک 62 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ صوبائی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال 2167 تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔ تاہم ان 2167 غیر ملکیوں کو جنوری سے مئی تک، یعنی صرف پہلے پانچ ماہ میں ملک بدر کیا گیا۔ جون کا حتمی ڈیٹا ابھی تیار کیا جا رہا ہے۔

ہیمبرگ

جرمنی کی شمالی شہری ریاست ہیمبرگ سے بھی اس سال کی پہلی ششماہی میں گزشتہ برس کے اسی دورانیے کی نسبت چار گنا زیادہ پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یکم جنوری سے تیس جون تک 2066 تارکین وطن ملک بدر کیے گئے، جن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔

صوبائی حکام کے مطابق ان تارکین وطن میں سے سولہ سو سے زائد پناہ گزین رضاکارانہ طور پر لیکن صوبائی حکام کی نگرانی میں اپنے وطنوں کو لوٹے۔ 419 تارکین وطن کو جبراﹰ ملک بدر کیا گیا جب کہ 42 پناہ گزین ایسے تھے جنہیں جبری طور پر ان تیسرے ممالک میں بھیج دیا گیا، جہاں سے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔

باویریا

گزشتہ برس جرمنی آنے والے تارکین وطن کی اکثریت آسٹریا کی سرحد سے متصل جرمن صوبے باویریا کے راستے جرمنی میں داخل ہوئی تھی۔ باویریا سے ملک بدری کے واقعات میں اس سال کی پہلی ششماہی میں پچھلے سال کے اسی دورانیے کی نسبت دو گنا اضافہ ہوا۔ رواں برس جون کے آخر تک تقریباﹰ دو ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا چکا تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان کا ان اعداد و شمار کے حوالے سے کہنا تھا، ’’ہمارا سیاسی پناہ کا نظام صرف اسی صورت میں دیرپا اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، جب حق دار مہاجرین کو فوری طور پر پناہ دی جائے اور ایسے تارکین وطن کو، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہوں، فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے۔‘‘

باقی جرمن صوبوں کی صورت حال

جرمنی کے دیگر صوبوں سے بھی تارکین وطن کے ملک بدر کیے جانے کے رجحان میں پچھلے سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ باڈن ورٹمبرگ سے پہلی ششماہی میں 1730 تارکین وطن ملک بدر ہوئے جب کہ صوبے لوئر سیکسنی سے بھی 1441 پناہ گزینوں کو ان کے وطنوں کی جانب بھیج دیا گیا۔

اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران جرمن دارالحکومت اور شہری ریاست برلن سے ملک بدریوں کی تعداد 1068 رہی جب کہ اسی دوران صوبے ہَیسے سے 980 تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔

باقی صوبوں کی نسبت زارلینڈ اور برانڈن برگ سے ملک بدر کیے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد نہایت کم رہی۔ زارلینڈ سے صرف 86 جب کہ رواں برس کے پہلے چار ماہ کے دوران برانڈن برگ سے محض 60 تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔

مالی معاونت کے ساتھ رضاکارانہ واپسی

جرمنی سے رضاکارانہ طور پر اپنے وطنوں کی جانب لوٹ جانے والے تارکین وطن کو مالی معاونت فراہم کرنے کے منصوبے بھی موجود ہیں۔ جون کے مہینے تک صرف نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 8356 تارکین وطن نے ایسے منصوبوں کے تحت اپنی رضاکارانہ واپسی کے لیے درخواستیں دی تھیں، جن میں سے اب تک 2652 پناہ گزین اب تک اپنے آبائی ملکوں کو لوٹ بھی چکے ہیں۔

نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے صوبائی وزیر داخلہ رالف ژیگر کا کہنا تھا، ’’رضاکارانہ وطن واپسی سب کے لیے ایک بہترین حل ہے اور اسی لیے ہم مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر واپس جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اپنی مرضی سے واپس جانے کے خواہش مند پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہماری طرف سے یہ ترغیب ایک درست فیصلہ ہے۔‘‘

2016ء کی پہلی ششماہی کے دوران باویریا سے 6200، لوئر سیکسنی سے 4605 جب کہ ہَیسے سے 3635 تارکین وطن رضاکارنہ طور اپنے ملکوں کو لوٹ گئے۔

مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید