1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلام پر مغربی تہذیب کی بالادستی ظاہر کرنا ضروری ہے‘، ایبٹ

عابد حسین9 دسمبر 2015

سابق آسٹریلوی وزیراعظم ٹونی ایبٹ کے مطابق دورِ حاضر میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ مغربی دنیا اسلام پر اپنی برتری کا واضح طور پر اظہار کر دے۔ اِس بات کا اظہار انہوں نے اپنے ملک کے ایک اخبار میں لکھے گئے ایک مضمون میں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HJdC
تصویر: Win McNamee/Getty Images

آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے کہا ہے کہ ثقافتیں مساوی نہیں ہوتیں اور اسی لیے مغرب کو اسلام پر اپنی بالادستی ظاہر کرنا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اِس ثقافتی بالادستی سے واضح ہو گا کہ خدا کے نام پر قتل کرنے کو مغربی اقدار میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایبٹ کے مطابق اسلام کے اندر اصلاح پسندی اور روشن خیالی کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی اور نہ ہی کثرتِ رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ دوسری جانب آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بُل نے نیشنل ریڈیو پر سابق وزیراعظم کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ ٹونی ایبٹ اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی رکھتے ہیں لیکن آسٹریلیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد انتہا پسندی سے بیزار ہو چکی ہے۔

ٹونی ایبٹ نے ان خیالات کا اظہار آسٹریلوی شہر سڈنی کے ایک انتہائی معروف اخبار ڈیلی ٹیلیگراف میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل سے اب انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے مضمون میں آسٹریلوی سیاستدان نے واضح انداز میں کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مغرب مذہبِ اسلام پر اپنی بھرپور ثقافتی برتری ثابت کرے تاکہ بہتر اقدار مناسب انداز میں ظاہر ہو سکیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اب مسلمانوں کے مذہب کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں۔ ایبٹ عقیدتاً کٹر کیتھولک ہیں اور ان کو رواں برس میلکم ٹرن بُل نے حکمران لبرل پارٹی کے اندر سیاسی بغاوت کے نتیجے میں منصبِ وزراتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا تھا۔

Australien Tony Abbott Premierminister
آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم ٹونی ایبٹتصویر: picture-alliance/epa/S. Moody

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اِس متنازعہ بیان سے ٹونی ایبٹ ایک مرتبہ پھر آسٹریلیا کی سیاست میں بھرپور واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن سیاسی جماعت لیبر پارٹی کے نمایاں سیاستدان اور رکنِ پارلیمنٹ ایڈ ہُوسیک نے ایبٹ کے بیان پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ کا یہ بیان امریکی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں بارے بیان کے مساوی ہے اور وہ آسٹریلیا کے سیاسی منظر پر ’ٹرمپی‘ سیاست کو ابھارنا چاہتے ہیں۔ ہوسیک نے یہ بھی کہا کہ اِس ملک کی سیاست میں قدامت پسندانہ سوچ کا حامل سیاستدان انتہا پسندانہ سوچ کی آبیاری کرنے کی کوشش میں ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ ٹونی ایبٹ سیاست میں آنے سے قبل بہت ہی مختصر عرصے کے لیے پادری بھی رہے تھے۔ اِسی تناظر میں اُن کے مخالف سیاستدان اُنہیں ’پاگل راہب‘ سے بھی پکارتے ہیں۔ آسٹریلوی لیبر پارٹی کے لیڈر بل شارٹن نے سابق وزیراعظم کے اِس مضمون کے مندرجات کو انتہائی منفی اثرات کا حامل قرار دیا ہے۔ اِسی طرح آسٹریلیا کے انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ گیلین ٹرگز نے بھی اِس مضمون پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا میں مذہبِ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی بیان محتاط انداز میں دینا ضروری ہے کیونکہ ایسے بیانات بنیاد پرستانہ رجحانات کو فروغ دے سکتے ہیں۔