1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل پھر تنقید کی زد میں

3 فروری 2010

غزہ حملے کے دوران اسرائیلی فوج کے طرزِعمل پر دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیوں کی تنقید ان انکشافات کے بعد مزید بڑھ گئی ہے، جس کے مطابق اسرائیلی فوج نے شہریوں کے تحفظ سے متعلق اپنی ہی ملک کی پالیسی کی خلاف ورزی کی۔

https://p.dw.com/p/LrCO
تصویر: DW

اسرائیلی فوج کے ایک اعلٰی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ اِس یہودی ریاست نے گزشتہ سال غزہ میں حملے کے دوران جنگ یا تنازعے کی صورتِ حال میں شہریوں کے تحفظ سے متعلق اپنی ہی پالیسوں کی خلاف ورزی کی۔ اسرائیلی سپاہیوں کے لئے زیرو رسک کی پالیسی اپنائی گئی، جو تل ابیب کی اس پالیسی کے خلاف ہے، جس کے مطابق شہریوں کی جانیں بچانے کے لئے سپاہیوں کو خود کو خطرے میں ڈالنا چاہیے۔

گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل پر لگائے جانے والے جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات کی حدت ابھی برقرار ہی تھی کہ گھر کے بھیدیوں کے نئے الزامات نے اسرائیلی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے عہدیداران کے نئے انکشافات تل ابیب پر بجلی بن کر گرے ہیں اور اسرائیل سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں غزہ کے حملے کے دوران اسرائیلی فوج کے طرزِ عمل کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہیں۔

برطانیہ کے روزنامے انڈیپینڈینٹ کے مطابق غزہ آپریشن کے ایک اسرائیلی کمانڈنگ آفیسر کے مطابق جنگ کی حالت میں اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ ایک مشتبہ دہشت گرد پر صرف اس وقت ہی فائر کیا جا سکتا ہے، جب اس کے پاس ہتھیار ہوں یا ایسے اشارے ملیں کہ وہ انہیں استعمال کرنے والا ہے۔ اسرائیلی فوجی عہدیدارکے مطابق اس اصول کی آپریشن کاسٹ لیڈ میں پاسداری نہیں کی گئی۔

سن 2006ء میں مغربی کنارے میں فرائض ادا کرنے والے اسرائیل فوجیوں کو واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ کسی مسلح شخص پر بھی صرف اسی صورت میں فائر کیا جا سکتا ہے، جب اُس کی جانب سے اسرائیلی سپاہیوں پر حملے کا خطرہ ہو۔

Gaza Demonstration Hamas Anhänger
تصویر: AP

ایک دوسرے فوجی عہدیدار نے بتایا کہ غزہ پرحملے کے دوران جو پالسی اپنائی گئی، اس کا بنیادی نکتہ سپاہیوں کی جانوں کو لاحق خطرات کو کم کرنا تھا۔ ایک اور اسرائیلی فوجی کا کہنا یہ تھا کہ مستند اطلاع کے بعد کسی دہشت گرد کو مارنے کے بجائے، اسرائیلی فوج نے کچھ علاقوں میں پہلے لوگوں کا مارا اور بعد میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ مرنے والے کون ہیں۔

اب تک عوام کی نظر سے اوجھل رکھے جانے والے ان انکشافات کے بارے میں انسانی حقوق کے ایک اسرائیلی کارکن Micheal Sfard کا کہنا ہے کہ ان انکشافات کے سچ ہونے کی صورت میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جرائم کا ارتکاب کس نے کیا ہے۔

اسرائیلی فوجی عہدایدار نے یہ انکشافات ملکی روزنامے Yedhiot Ahronot کے ایک صحافی کے سامنے کئے تھے، جو غزہ حملے پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھ رہا تھا۔ رپورٹ پانچ مہینے پہلے اشاعت کے لئے تیار تھی لیکن اسے اب تک شائع نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت نے ان نئے انکشافات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

رپورٹ۔۔ عبدالستار

ادارت۔۔ امجد علی