1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل میں حکومت سازی اور مشرق وسطی امن عمل کا مستقبل

عاطف بلوچ31 مارچ 2009

اسرائیل لیکوڈ پارٹی کے رہنما نیتن یاہو دس سال کے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم کےعہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ تاہم حلف برداری سے قبل ہی نیتن یاہو کی نامزد وزراء کی طویل فہرست باعث تنقید بن چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/HNhr
نیتن یاہو کے نامزد وزراء کی طویل فہرست پر تنقید کی جارہی ہےتصویر: AP

آج لیکوڈ پارٹی کےرہنما انسٹھ سالہ نیتن یاہو وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ اسرائیل میں نئی حکومت کے قیام کے سے قبل ہی مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔گزشتہ روز نیتن یاہو نے اسرائیلی پارلیمان میں اپنے خطاب کے دوران اپنے موقف کو دہرایا کہ وہ حکومت سازی کےبعد عرب دنیا اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی اور مجموعی طور پر پائیدار قیام امن کے لئے کوششیں تیز تر کر دیں گے تاہم انہوں نے اپنے اِس خطاب میں بھی آزاد فلسطین کے قیام کے لئےکسی عہد کا ذکر نہیں کیا۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نیتن یاہو نے ماضی میں خیال ظاہر کیا تھا کہ فلسطین کو مکمل طور پر آزاد اور علیحدہ ریاست بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں امن عمل کا ایک اہم حصہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام بھی ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ملک امریکہ بھی خطے میں پائیدار امن کے لئے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہے۔

تاہم نیتن یاہو کی نامزد مخلوط حکومت نے ماضی میں کئے گئے تمام بین لاقوامی معاہدوں کو نبھانے کا عہد ظاہر کیا ہے اور انہی معاہدوں میں سن انیس سو نوے کے ایک معاہدے کے تحت واضح طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا عہد بھی کیا گیا تھا۔

ماہرین کے خیال میں نیتن یاہو کی نامزد حکومت کی طرف سے اسرائیلی۔ فلسطینی تنازعے کے حل کئے لئے دو ریاستی فارمولے کی واضح حمایت نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کی نئی حکومت کی پالیسی، امریکہ اور یورپی یونین کی پالیسوں سے متصادم ہو سکتی ہے اور اس بات کا خدشہ امریکی اور یورپی رہنما پہلے ہی ظاہرکر چکے ہیں۔

دوسری طرف فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیل کی نئی حکومت پر زور ڈالا ہے کہ وہ اسرائیلی ۔ فلسطینی تنازعے کے حل کے لئے واضح طور پر دو ریاستی حل کو تسلیم کرے۔

نیتن یاہو نے گزشتہ روز یہ بھی کہا تھا کہ ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام اُن کی حکومت کے لئے ایک ترجیحی ایجنڈا رہے گا۔

دریں اثنا حلف برداری سے قبل ہی نیتن یاہو کی نامزدکابینہ میں شامل وزراء کی بڑی تعداد بھی موضوع سخن بنی ہوئی ہے۔ اس کابینہ میں کٹڑسوچ کے حامیAvigdor Lieberman کو وزیر خارجہ کے عہدے کے لئے نامزد کئے جانے کے علاوہ نئی کابینہ میں وزرا کی طویل فہرست بھی نشانہ تنقید بنی ہوئی ہے ۔ مجوزہ وزراء کی کل تعداد تیس بتائی جا رہی ہے جو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے بڑی کابینہ ہو گی۔ ناقدین کے خیال میں کل ایک سو بیس رکنی پارلیمان میں وزراء کی تعداد کا اٹھارہ سے زائد ہونا عوامی مالی وسائل کا ضیاع ہو گا۔