1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حل کا موقع ہے: مبارک

رپورٹ: گوہر نذیر، ادارت:ندیم گل20 جون 2009

مصری صدر حسنی مبارک نے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لئے امریکی صدر اوباما کی حالیہ کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے ’’مثبت کردار‘‘ سے اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کو مسئلے کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/IV44
امریکی صدر اوباما اپنے مصری ہم منصب مبارک کے ساتھتصویر: AP

حسنی مبارک نے ان خیالات کا اظہار اپنے ایک تبصرے میں کیا ہے۔ ’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں شائع ہونے والے اپنے تبصرے میں حسنی مبارک نے لکھا ہے کہ باراک اوباما مشرق وسطیٰ تنازعے کے منصفانہ حل اور اس خطّے میں پائیدار امن کے قیام کے حوالے سے ’’لیڈ رول‘‘ لینے کے لئے تیار ہیں۔ مبارک کے مطابق عرب قیادت بھی مثبت جواب دینا چاہتی ہے۔

Waffenruhe zwischen Israel und Hamas vereinbart
حماس کے کارکنتصویر: picture-alliance/ dpa

’’میرے خیال میں ایک تاریخی سمجھوتہ بہت قریب ہے۔ ایک ایسا سمجھوتہ جس کے تحت فلسطینیوں کو ایک آزاد اور علیحدہ ریاست نصیب ہوگی اور غیر قانونی قبضے سے نجات بھی جبکہ دوسری طرف امن کی فضاء میں ایک ایسی اسرائیلی ریاست قائم رہے گی، جسے عرب دنیا تسلیم کرے گی۔‘‘

حسنی مبارک نے اپنے اس تبصرے میں مزید لکھا ہے کہ ان کا ملک ایک ایسے ’’سنہری موقع‘‘ کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا، جس سے اسرائیل۔ فلسطین تنازع کا حل ممکن ہو۔

’’مصر اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے اور میں پراعتماد ہوں کہ پوری عرب دنیا بھی ایسا ہی کرنا چاہے گی۔‘‘

مصری صدر حسنی مبارک کے مطابق ان کے امریکی ہم منصب باراک اوباما کا قاہرہ میں مسلم دنیا سے حالیہ خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مبارک کے مطابق قاہرہ یونیورسٹی میں اوباما کا خطاب امریکہ اور مسلم دنیا کے تعلقات میں ایک ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔’’اوباما کا پیغام بالکل صاف، واضح اورغیرمبہم تھا۔ سیاست اور پالیسی کے مسائل ہی مسلم دنیا اور امریکہ کو الگ کرتے ہیں نہ کہ اقدار۔ مسائل کے حل سے اس خلیج کو پُر کیا جاسکتا ہے۔‘‘

مبارک نے تاہم اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کے عمل اور غزہ پٹی کی ناکہ بندی کو امن کے راستے میں بڑی ’’رکاوٹ‘‘ قرار دیا۔

’’اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کی سرحدی گزرگاہوں پر سخت رکاوٹیں کھڑی کرنا، پابندیاں عائد کرنا اور یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنا، یہ سب اقدامات دو ریاستی حل کے لئے صیحیح نہیں ہیں۔‘‘

حسنی مبارک نے فلسطینی قیادت پر بھی زور دیا کہ انہیں علیحدہ ریاست کے حصول کے لئے اپنے اختلافات کم کرکے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کی جماعت الفتح اور اسمٰعیل ھنیہ کی تنظیم حماس تحریک کے درمیان زبردست اختلافات ہیں۔ غزہ پر حماس تحریک کے مسلح عسکریت پسندوں کا کنٹرول ہے جبکہ الفتح مغربی کنارے میں سرگرم عمل ہے۔

Hamas Premierminister Ismail Hania in Gaza Stadt
حماس تحریک کے رہنما اسمٰعیل ھنیہتصویر: AP

فلسطین میں متحدہ حکومت قائم کرنے کے لئے مصر کی ثالثی میں حماس اور الفتح کی قیادت کے درمیان مذاکرات کے کئی دور بھی ہوئے تاہم ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے حسنی مبارک کے اس تبصرے میں شامل تاثرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اوباما انتظامیہ اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کو حل کرنے میں مخلص ہے اور سنجیدہ بھی۔‘‘

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان Ian Kelly نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے ویژن کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے عرب ممالک سمیت تمام فریقین کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔