1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلیوں کے پرانے کپڑے، غزہ کے بازار میں مقبول

افسر اعوان24 فروری 2016

کپڑوں کے رنگ کسی حد تک خراب ہو چکے ہیں، یہ پرانے بھی ہیں اور یہ ایک بعید از قیاس جگہ سے آئے ہیں مگر غزہ کے ایک مہاجر کیمپ میں پرانی چیزوں کی ہفتہ وار مارکیٹ میں یہ کپڑے بھی فلسطینی خواتین کے لیے ایک نعمت کی طرح ہیں۔

https://p.dw.com/p/1I19p
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khatib

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹد پریس کے مطابق ان پرانے کپڑوں کی طلب میں اضافہ دراصل غزہ کی معاشی صورتحال کی آئینہ دار ہے۔ غزہ پر گزشتہ ایک دہائی سے عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس کی حکومت ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس علاقے کی ناکہ بندی کے سبب غزہ پٹی کے علاقے میں غربت اور بے روزگاری اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

2007ء میں غزہ پٹی پر حکومت بننے کے بعد حماس اور اسرائیل تین مرتبہ جنگ کر چکے ہیں۔ اسرائیل اور مصر کی طرف سے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کے باعث اس علاقے سے لوگوں کے علاوہ ساز وسامان کی آمدورفت پر بھی پابندی ہے۔ اسرائیل اور مصر کا مؤقف ہے کہ غزہ پٹی میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے یہ ناکہ بندی ضروری ہے۔

ہر پیر کے روز النصيرات کی مارکیٹ میں دکاندار نیلے رنگ کے نائیلون پر کپڑوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ درجنوں کی تعداد میں خواتین یہاں آ کر اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے تلاش کرتی اور خریدتی نظر آتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون جنہوں نے اپنا تعارف اُم خالف کے نام سے کرایا، کہنا تھا کہ کپڑے پرانے تو ہیں مگر ان کی قیمت بہت مناسب ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’دکان سے ایک نئی شرٹ عام طور پر 100 شیکل (قریب 25 ڈالرز) میں ملتی ہے جبکہ میں نے یہاں سے اپنے پانچوں بچوں کی شرٹس 20 شیکل میں خریدی ہیں۔‘‘

کسی اسرائیلی کے پہنے ہوئے کپڑے خریدنا آپ کے لیے مسئلہ نہیں ہے؟ اس کے جواب میں اُم خالف کا کہنا تھا، ’’قیمت مناسب ہے، ہم انہیں دھو لیتے ہیں اور خدا پر اپنا بھروسہ قائم رکھتے ہیں۔‘‘

ہر پیر کے روز النصيرات کی مارکیٹ میں دکاندار نیلے رنگ کے نائیلون پر کپڑوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں
ہر پیر کے روز النصيرات کی مارکیٹ میں دکاندار نیلے رنگ کے نائیلون پر کپڑوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Khatib

غزہ کی نصف آبادی کی طرح اُم خالف کے شوہر بھی ان دنوں بے روزگار ہیں۔ وہ ایک ترکھان ہیں اور چونکہ حالیہ برسوں کے دوران مصر نے وہ بہت سی خندقیں بند کر دی ہیں جن کے ذریعے غزہ میں سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی ساز وسامان آتا تھا، اس وجہ سے وہاں تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تو ان کے لیے کام بھی دستیاب نہیں ہے۔ چند برس قبل تک یہ خندقیں غزہ کی معیشت کے لیے لائف لائن کا درجہ رکھتی تھیں اور حماس حکومت ان خندقوں کے ذریعے اسمگل کیے جانے والے سامان پر لاکھوں ڈالر بطور ٹیکس وصول کرتی تھی۔

ایک مقامی دکاندار فائز مقداد ہر ماہ کئی ٹن پرانے کپڑے اسرائیل سے منگواتے ہیں۔ یہ کپڑے کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے غزہ پہنچتے ہیں جو اسرائیل اور غزہ پٹی کے درمیان اکلوتی تجارتی کراسنگ ہے۔ جب یہ کپڑے غزہ پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے ان میں سے ڈیزائنر لیبل والے اور اچھے کپڑے چُن کر الگ کر لیے جاتے ہیں جو استعمال شدہ کپڑوں کی دکانوں پر بِکتے ہیں جبکہ باقی ماندہ کپڑوں کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے جہاں سے خواتین اپنی ضرورت کے مطابق خریداری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا تن ڈھانپنے کی کوشش کرتی ہیں۔

مقداد کے مطابق، ’’جب یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات بہتر تھے تو لوگ اچھے کپڑے خریدتے تھے مگر اب سب کچھ بِک چکا ہے کیونکہ لوگوں کے پاس روزگار ہی نہیں ہے۔‘‘