1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

استنبول حملے کے مبینہ ملزم کے بارے میں نئے انکشافات

عابد حسین
3 جنوری 2017

ترک سیکورٹی حکام بڑی شد و مد سے نئے سال کی شب کیے گئے ہولناک حملے کے ملزم کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں انتالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2VC4w
Türkei Blumen vor dem Reina Nachtclub in Istanbul
نائٹ کلب کے باہر سوگواروں نےپھول رکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےتصویر: Reuters/Y. Karahan

ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے رینا نائٹ کلب پر حملے کا ملزم بدستور مفرور ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حملہ آور دو بدو لڑائی کی تربیت رکھتا تھا اور اُس کے تمام رویوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کئی برسوں سے شام کی لڑائی میں شریک رہا ہے۔ اِس ذریعے نے یہ بھی کہا کہ وہ نائٹ کلب میں حملے کے لیے یقینی طور پر اپنی تنظیم کی ہدایت پر عمل پیرا ہوا تھا۔

Türkei Fahndungsfoto Anschlag in Istanbul
استنبول کے نائٹ کلب پر حملے کا مبینہ ملزمتصویر: picture-alliance/dpa/Dha/Depo Photos/ZUMA Wire

ترکی کے ایک اخبار ’ہابرترک‘ نے پولیس ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ حملہ آور شام سے ترکی میں داخل ہوا تھا۔ وہ گزشتہ برس نومبر سے قبل ہی ترکی پہنچنے کے بعد مولانا روم کے مقبرے کے شہر قونیا بھی گیا۔ پولیس کے مطابق اُس کی بیوی اور دو بچے بھی اُس کے ہمراہ ہیں تا کہ اُس پر فوری طور پر کوئی شک نہ کیا جا سکے۔ اسی طرح سی این این ترک کا کہنا ہے کہ حملہ آور کرغیزستان کا شہری معلوم ہوتا ہے۔

مختلف اخبارات اور ٹیلی وژن پر نشر کی جانے والی رپورٹوں پر تک سکیورٹی حکام نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ لیکن انقرہ حکومت کے ترجمان نعمان کُرتُلموس کا کہنا ہے کہ تمام شواہد کی روشنی میں تفتیشی اہلکار اِس نکتے پر پہنچنے والے ہیں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ حملہ آور کون تھا۔ ابھی تک اُس کی شہریت پر بھی قیاس آرائی کی گئی ہے اور نام کے بارے میں کچھ بھی نہں کہا جا سکتا۔

نعمان کُرتُلموس کا کہنا ہے کہ مبینہ حملہ آور کی انگلیوں کے نشان حاصل کر لیے گئے ہیں اور اُن سے اُس کی شناخت کا عمل مکمل کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ترجمان نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ذمہ داری قبول کرنے کے بیان پر کوئی تبصرہ کرنے سے بھی گریز کیا۔ حملہ آور کی تقسیم اسکوائر پر بنائی گئی مبینہ سیلفی ویڈیو کو بھی ترک ٹیلی وژن چینلز نے نشر کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار اور متعدد غیر ملکیوں سمیت انتالیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملہ آور کو اپنا ایک سپاہی قرار دیا تھا۔ اِس عسکریت پسند تنظیم نے  نئے سال کی تقریبات کو مرتد لوگوں کے تہوار سے بھی تعبیر کیا ہے۔