1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارجنٹائن : ہم جنس جوڑوں کے لئے بھی مساوی حقوق

16 جولائی 2010

ارجنٹائن میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا گیا، جس کے تحت ہم جنس افراد کے درمیان شادی کو بھی مخالف جنس کے افراد کے درمیان شادی کی سی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ارجنٹائن ایسی قانون سازی کرنے والا پہلا لاطینی امریکی ملک ہے۔

https://p.dw.com/p/OMq1
تصویر: AP

مسیحی عقیدے کے رومن کیتھولک باشندوں کی اکثریت والے ملک ارجنٹائن کی سینیٹ نے جمعرات کے روز ہم جنس پرست افراد کی آپس میں شادی کے جس قدرے متنازعہ قانونی بل کی منظوری دی، اسے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

اس قانونی مسودے کو بر سر اقتدار سینٹر لیفٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی ملکی صدر کرسٹینا کرشنر کی حمایت حاصل تھی۔ سینیٹ میں اس قانون پر کوئی 15 گھنٹے بحث کی گئی اور بعد میں ہونے والی ووٹنگ میں 33 ارکان نے اس مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس مسودے کی 27 اراکین نے مخالفت کی جبکہ تین ممبران نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔

Flash-Galerie Zehntausende demonstrieren gegen Homo-Ehe
قانون کی منظوری کے بعد ہم جنس پرستوں کی بڑی تعداد سینیٹ کی عمارت کے باہر خوشی کا اظہار کرتے ہوئےتصویر: AP

اس وقت اپنے ایک دورے پر چین میں موجود خاتون صدر کرشنر نے اس قانونی بل کی منظوری پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ’’یہ ایک مثبت قدم ہے۔ اس طرح ملک میں موجود ایک سماجی اقلیت کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو پائے گا۔‘‘

40 ملین کی آبادی والے ارجنٹائن کے شہریوں کا 90 فیصد رومن کیتھولک مسیحیوں پر مشتمل ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس قانون کی منظوری سے قبل شدید ترین مخالفت بھی دیکھنے میں آئی۔

اس مسودہ قانون کی منظوری کے بعد سینکڑوں افراد ملکی پارلیمان کے ایوان بالا کے باہر جمع ہو گئے اور انہوں نے ’’مساوات، مساوات‘‘ کے نعرے بلند کئے۔ اس موقع پر کئی ہم جنس پرست جوڑے بھی موجود تھے۔ اس دوران کیتھولک کلیسا کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ اس موقع پر مخالف گروپوں کے درمیان معمولی نوعیت کی جھڑپیں بھی ہوئیں اور ایک دوسرے پر انڈے اور مالٹے بھی پھینکے گئے تاہم بعد میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کر دیا۔

Flash-Galerie Hochzeitsbräuche Blechdosen am Hochzeitsauto
ہم جنسوں پرستوں کی باہمی شادیوں کے حق میں قانون منظور کر لیا گیا ہےتصویر: AP

ارجنٹائن کے سابق صدر Adolfo Rodriguez Saa نے اپنے ایک انٹرویو میں اس قانون کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر اس قانون کی قبولیت کے لئے ابھی خاصا وقت درکار ہو گا۔

’’یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ مگر سڑکوں پر اسے مقبولیت آسانی سے نہیں مل سکتی۔ نفرت اور ردعمل کے خاتمے میں یقینی طور پر خاصا وقت لگے گا۔‘‘

اس سے قبل کیتھولک چرچ اور حزب اختلاف کی جانب سے اس معاملہ پر ملک میں ریفرنڈم کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔

رپورٹ: عاطف توقیر

ادارت: مقبول ملک