1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اخبار کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا، فرانسیسی حکام

3 نومبر 2011

پیرس میں ہفت روزہ ’چارلی ہیبدو’ کے دفتر پر پیٹرول بم سے حملہ ہوا ہے، جسے اس کے سرورق پر پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے کی اشاعت کا ردِ عمل بتایا جاتا ہے۔ حکام نے حملہ آوروں کی گرفتاری کا عندیہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/134H7
تصویر: dapd

فرانسیسی حکام نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ یہ متنازعہ خاکہ عرب ممالک میں جاری جمہوری تحریکوں کے پس منظر سے متعلق اخبار کے خصوصی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کیا گیا۔

اس اخبار کی ویب سائٹ بھی بدھ کو ہیک کر لی گئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کچھ دیر کے لیے اس کی ویب سائٹ پر ایک مسجد کی تصاویر دکھائی دیتی رہیں۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی تھا، ’نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے۔‘ بعدازاں یہ ویب سائٹ خالی دکھائی دینے لگی۔

فرانس کے وزیر داخلہ Claude Gueant نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی چارلی ہیبدو کو پسند کرے یا نہ کرے، لیکن یہ ایک اخبار ہے اور فرانس کے لیے آزادئ صحافت قابلِ تعظیم ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بدھ کو پیٹرول بم کے نتیجے میں اخبار کے دفتر میں آگ لگ گئی، لیکن اس کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا۔ گراؤنڈ اور فرسٹ فلور پر کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ آگ کے باعث عمارت کے اندرونی حصوں کو بھی نقصان پہنچا۔

چارلی ہیبدو کے ایڈیٹر اسٹیفن شاربونیئر کا کہنا ہے کہ عمارت ابھی تک اپنی جگہ پر ہے، لیکن اس کے اندر کچھ نہیں بچا۔

فرانس میں مسلمانوں کی مرکزی نمائندہ تنظیم ’فرنچ مسلم کونسل‘ نے اخبار کے دفتر پر حملے کی مذمت کی ہے جبکہ خاکے کی اشاعت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

فرانس میں اماموں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ طارق اوبرو نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دورِ حاضر کے حالات کی نزاکتوں کو بھی مدِ نظر رکھا جانا چاہیے۔

Frankreich Karrikaturenstreit Charlie Hebdo
اخبار کی ویب سائٹ بھی ہیک کی گئیتصویر: AP Graphics

مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے دبئی سے جاری کیے گئے بیان میں چارلی ہیبدو میں متنازعہ خاکے کی اشاعت کی مذمت کی ہے۔ او آئی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمان اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔

فرانس میں تقریباﹰ پچاس لاکھ مسلمان آباد ہیں جبکہ اس کی مجموعی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ اسلام میں پیغمبر اسلام کی کسی بھی شکل میں بصری پیشکش کی ممانعت ہے۔ ماضی میں ایسی اشاعتوں پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آ چکے ہیں جو بعض اوقات پرتشدد بھی رہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں