1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی اظہارپاکستان

’پاکستان میں غداروں کی فہرست تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی‘

شمشیر حیدر
12 ستمبر 2020

صوبہ پنجاب کی پولیس نے ملکی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین اور صحافی ابصار عالم کے خلاف ’سنگین غداری‘ کا مقدمہ درج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3iNly
Pakistan Ina Lepel und Absar Alam
تصویر: DW Akademie

ابصار عالم کے خلاف مقدمہ چوہدری نوید احمد نامی وکیل کی درخواست پر صوبہ پنجاب کے شہر دینہ میں دائر کیا گیا۔ چوہدری نوید حکمران جماعت تحریک انصاف کے حامی وکلا کی تنظیم 'انصاف لائرز فورم‘ کے علاقائی صدر بھی ہیں۔

ایف آر میں کیا کہا گیا؟

اس درخواست میں ابصار عالم پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر پاکستانی فوج اور ملکی وزیر اعظم کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی جو 'غداری‘ کے زمرے میں آتی ہے۔

اس درخواست میں انصاف لائرز فورم کے علاقائی صدر نے لکھا، ''افواج پاکستان دنیا کی واحد ایسی فوج ہے جس پر ساری دنیا فخر کرتی ہے۔‘‘ علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں مذکورہ وکیل نے لکھا، ''ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک امانت دار اور دیانت دار وزیر اعظم اس قوم کو نصیب ہوا ہے۔‘‘

نوید چوہدری نے ابصار عالم پر ملک کی 'جڑیں کھوکھلی کرنے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف دیگر قانونی شقوں کے ساتھ ساتھ 'سنگین غداری‘ کا مرتکب قرار دے کر مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی۔

پولیس نے اس درخواست پر ایف آئی آر (ابتدائی اطلاعی رپورٹ) درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

ابصار عالم کیا کہتے ہیں؟

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم نے بتایا کہ انہیں بھی اس مقدمے کے بارے میں سوشل میڈیا ہی کے ذریعے معلوم ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی ایف آئی آر کی کاپی نہیں ملی اور نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ مقدمے میں ان کی کن ٹوئیٹس کو بطور ثبوت شامل کیا گیا ہے۔

تاہم ابصار عالم کے مطابق انہوں نے اپنی کوئی ٹوئیٹ ڈیلیٹ نہیں کی، اور تمام ٹوئیٹس ایسی ہیں جن میں صرف سوالات ہی پوچھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''کچھ دن پہلے صحافی احمد نورانی کی ایک رپورٹ کے بعد کئی سوالات اٹھے، میرے ذہن میں بھی سوالات تھے جو میں نے پوچھے۔ سوال پوچھنا بطور شہری میرا حق ہے۔‘‘

مقدمے کے محرکات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''یہ مقدمہ بھی 'ملک میں آزادی اظہار روکنے کی پہلے سے جاری کوششوں کا حصہ ہے، جس کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ کر کے چپ رہنے پر مجبور کرنا ہے۔‘‘

پاکستان میں حالیہ دنوں کے دوران صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جمعے کے روز کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی بلال فاروقی کو بھی ایک شہری کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ فاروقی کے خلاف مقدمے میں ان پر ملکی فوج کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

تاہم ابصار عالم کے معاملے میں ان کے خلاف حکمران جماعت کے لائرز فورم سے وابستہ وکیل نے مقدمہ درج کرایا ہے۔ اس بارے میں ابصار سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، ''ایک سینیئر صحافی کامران خان نے، جن کے پاس کافی معلومات ہوتی ہیں، ہائبرڈ رجیم کی اصطلاح متعارف کرائی تھی، یہی ہائبرڈ رجیم نہیں چاہتی کہ ان کے بارے میں سوالات اٹھائے جائیں۔‘‘

مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ''میں مجرم نہیں ہوں، میں نے اپنا حق استعمال کیا۔ ڈرنے اور گھبرانے والا نہیں۔ قانونی طور پر عدالت میں ہر ممکن فورم پر سامنا کروں گا۔ اپنے سوالوں پر قائم ہوں ان کا جواب ملنا چاہیے۔ کوئی طاقتور اگر سمجھے کہ اس سے سوال نہ پوچھا جائے تو وہ غلط ہے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم قرون وسطیٰ کے زمانوں میں نہیں اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔‘‘

ابصار عالم ماضی میں کئی پاکستانی اداروں سے بطور صحافی بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ قریب دو برس تک پیمرا کے چیئرمین رہے تاہم تین سال پہلے ہائیکورٹ نے ان کی تعیناتی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تب سے انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور اس دوران وہ کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہیں۔

’میں بھی ابصار عالم ہوں‘ سوشل میڈیا پر رد عمل

پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے صحافی بلال فاروقی کی گرفتاری اور ابصار عالم کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے بارے میں لکھا کہ 'ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی‘۔

راجہ کبیر نامی ایک صارف نے لکھا، ''غداروں کی لسٹ بہت تیزی اور فراری سپیڈ کی طرح بڑھ رہی ہے اور آئے روز کوئی ایک نیا نام لسٹ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ فاطمہ جناح سے شروع  ہونے والاسلسلہ ابصار عالم تک جاری ہے۔‘‘

صحافی مرتضی سولنگی نے لکھا، ''اگر ابصار عالم غدار ہیں تو ہم سب غدار ہیں۔‘‘ انصار عباسی نے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، '' جب پولیس کو صحافیوں، سیاسی مخالفین کے خلاف ایسے مقدمات میں الجھایا جائے گا تو پھر پولیس کیسے اپنا اصل کام کرے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے مقدمہ دائر کرنے والے وکیل چوہدری نوید احمد کا موقف جاننے کے لیے ان سے بھی رابطہ کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت ان کی مصروفیات ہیں اور وہ اپنی دستیابی کے بارے میں بعد میں کسی وقت آگاہ کریں گے۔