آپریشن مشترک ختم لیکن ہلمند عوام کے مسائل نہیں
17 مارچ 2010مشترک دری زبان کا لفظ ہے اور افغانستان کے جنوبی علاقے ہلمند میں چونکہ افغانستان اور نیٹو کی فورسز نے طالبان کے خلاف مل کر کارروائی کی تھی اس لئے اسے آپریشن مشترک کا نام دیا گیا۔ اس دوران ہزاروں لوگ مرجا کے علاقے سے بھاگ گئے تھے اور ان افغان باشندوں کے مطابق اس آپریشن کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایک افغان شہری عبدالرحمان نے اس آپریشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’بہت سے لوگ اور میڈیا کہتا ہے کہ آپریشن ختم ہو گیا ہے لیکن حکومت اور آئی سیف ابھی تک علاقے کو کلیئر نہیں کرا سکی۔ طالبان ابھی بھی گلیوں میں مسلحہ دندناتے پھر رہے ہیں۔‘
ایک دوسرے افغان شہری عبداللہ کا بھی یہ ہی خیال ہے کہ یہ آپریشن ناکامی سے دوچار ہواہے۔ ’’امریکی فوجی دن کو بارودی سرنگیں صاف کرتے ہیں اور طالبان رات کو آکر نئی بارودی سرنگیں بچھا دیتے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔‘‘
صحافی مشتبر کے مطابق ہلمند میں آپریشن مشترک کوئی اپنی نوعیت کی پہلی کارروائی نہیں ہے، پہلے بھی اس قسم کی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن کے بعد غیرملکی اداروں نے جو اسکول تعمیر کروائے تھے وہ طالبان نے جلا دئے ہیں۔
مشتبر کا خیال ہے کہ فوجیوں کو ایسی کارروائی شروع کرنے کے بعد وہاں ٹھرنا چاہئے کیونکہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔’ حکومت یا امریکی فوج ، جو بھی یہاں آپریشن کرنے آتا ہے اسے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے یہاں رکنا چاہیئے۔ کیونکہ مقامی آبادی کو ہروقت یہ خوف ہوتا ہے کہ طالبان دوبارہ آ کر انہیں مار دیں گے۔ ‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف کارروائی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب پولیس اور فوج زیادہ عرصے تک یہاں موجود رہیں۔ اور یہی اس بات کا ثبوت ہوگا کہ افغان حکومت، غیرملکی فوجیں اور پولیس واقعی مشترکہ طور پر ہلمند میں قیام امن کے لئے کوشش کر رہی ہیں۔
رپورٹ: تھوماس بیرتھ لائن /بخت زمان
ادارت: کشور مصطفیٰ