1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹریا کے انتخابات میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی نمایاں کامیابی

30 ستمبر 2008

یورپی ملک آسٹریا میں گذشتہ وِیک اَینڈ کے پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازو کی قوتوں کو نمایاں کامیابی ملی ہے۔ ایسے میں بیرونی دُنیا میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ اِس یورپی ملک میں دائیں بازو کے عناصر غلبہ پا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/FRod
’’آسٹریا کے مستقبل کے لئے اتحاد‘‘ نامی جماعت کے دائیں بازو کے تعلق رکھنے والے چوٹی کے امیدوار انتخابات میں نمایاں کامیابی کے بعد۔ ژورگ حیدر بائیں جانب سب سے آخر میں کھڑے ہیں۔تصویر: AP

جرمنی کے اِس ہمسایہ ملک میں دائیں بازو کی قوتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو خاص طور پر اسرائیل میں توجہ کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

آسٹریا کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کا اصل فاتح دائیں بازو کے رہنما Jörg Haider کوکہا جا سکتا ہے۔ اُن کی کوششوں سے’’آسٹریا کا مستقبل‘‘ نامی اتحاد، جسے پہلے چار فیصد حمایت حاصل تھی، گیارہ فیصد نشستیں جیتنے میں کامیاب رہا اور یوں دائیں بازو کی قوتوں کو مجموعی طور پر انتخابات سے پہلے کی گئی پیشین گوئیوں سے بھی کہیں زیادہ کامیابی نصیب ہوئی۔

ژورگ حیدر کے الفاظ میں فکر کی ایک نئی لہر نوجوان ووٹروں کے اذہان کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا:’’نوجوان ایک بار پھر زیادہ بھرپور انداز میں اپنے وطن کے ساتھ اپنی شناخت کروا رہے ہیں۔ آپ لوگ اصل میں نوجوانوں کو اپنی جماعتوں سے دور بھگا رہے ہیں۔ مَیں کون ہوں کہ انتخابات کے حوالے سے آپ کو کوئی مشورے دوں۔ لیکن ہوا یہ ہے کہ رَیڈ، گرین یا بلیک، جو بھی آپ کی جماعتوں کے امتیازی رنگ ہیں، نوجوانوں کو آپ کی جماعتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘

ژورگ حیدر کا یہ بیان ماہرین کے اِس تجزیے کی تصدیق کر رہا ہےکہ دائیں بازو کی جماعتوں کی کامیابی کے پیچھے نوجوانوں اور خاص طور پر اُن نوجوان ووٹروں کا ہاتھ ہے، جنہوں نے اِس مرتبہ پہلی بار اپنا حق رائے استعمال کیا تھا۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے کارکن اور رہنما اِن نوجوانوں کو لبھانے کے لئے کہیں ڈِسکو وغیرہ میں لے کر نہیں گئے بلکہ اُنہوں نے غیر ملکیوں کے موضوع کا سہارا لیا۔ پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والا ایک سترہ سالہ نوجوان دائیں بازو کی جماعتوں کو ملنے والی کامیابی پر بے انتہا مطمئن ہے:’’میرے خیال میں انتخابات بہت اچھے انداز میں ہوئے ہیں۔ غیر ملکیوں کا موضوع میرے لئے خاص طور پر اہم تھا۔ میرے خیال میں نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ آسٹریا کے بہت سے باشندے اِس موضوع سے متاثر ہوئے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آسٹریا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ بہرحال، اب مَیں چلتا ہوں‘‘

اِس نوجوان ووٹر نے اجازت بھی لے لی، اِس سے پہلے کہ آدمی اُس سے یہ پوچھ سکتا کہ آسٹریا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، جہاں تقریباً تیس فیصد رائے دہندگان نے اجانب دشمنی اور غیر یقینی مستقبل سے خوف کے باعث دائیں بازو کی دونوں انتہا پسند جماعتوں کو منتخب کیا ہے۔

آیا آسٹریا میں اب دائیں بازوکے عناصر کا غلبہ بڑھ رہا ہے، اِس بارے میں اِس ملک کے بہت سے باشندے ملی جلی رائے رکھتے ہیں۔ زیادہ تر کے خیال میں لوگوں نے محض بطور ِ احتجاج دائیں بازو کی جماعتوں کو منتخب کیا ہے۔ تاہم دیکھا جائے تو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کبھی بھی پارلیمان میں دائیں بازو کے عناصر اتنے طاقتور نہیں تھے، جتنے اِن انتخابات کے بعد سے ہو گئے ہیں۔