1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس آئی کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع

11 مارچ 2010

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کی مدتِ ملازمت میں بھی ایک سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس فیصلے کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اور آیا ایسے اقدامات سے پاکستانی جمہوری اداروں پر بھی کوئی اثر پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/MQMW
تصویر: picture alliance / dpa

پاکستان میں فوجی اور سول اداروں کے مابین اختیارات کا مسئلہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔ ملک کے دو سابق وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کو اُس وقت اپنے اقتدارسے ہاتھ دھونا پڑے جب انہوں نے 1950 کی دہائی میں مغرب نواز فوجی اتحاد بغداد پیکٹ میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت کی مخالفت کی تھی۔

Zulfikar Ali Khan Bhutto
سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے طاقتورسربراہِ حکومت سمجھا جاتا ہے۔تصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما نواز شریف نے اپنے اپنے ادوار میں ملٹری کو سویلین کنڑول میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے فوج کے سربراہان کو استعفے دینے پر مجبور کر دیا تھا۔

لیکن 12 اکتوبر 1999 کے بعد پاکستان کے اداروں پر ایک بار پھر فوج کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کے استعفے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اب ملکی سیاست میں فوج کا اثر و رسوخ کم ہوجائے گا۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ اٹھارہ ماہ میں کئی سیاسی فیصلے فوج کے دباؤ کی وجہ سے کئے گئے۔ حال ہی میں لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع بھی بظاہر ایسے ہی فیصلوں میں سے ایک ہے۔

Pakistan Ehemaliger Premierminister Nawaz Sharif
نوازشریف نے اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو سیاسی بیان دینے پر مستفعیٰ ہونے پر مجبورکیا۔تصویر: AP

اس مسئلے پر معروف دفاعی تجزیہ نگارعائشہ صدیقہ آغا کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات پاکستان کے جمہوری اداروں کے لئے مفید نہیں ہیں۔ "اس سے جمہوری اداروں کو خطرہ بھی ہے اوراس سے جمہوریت کمزور بھی ہو گی۔ کسی بھی اعلیٰ ترین سرکاری افسر کی مدت ِملازمت میں توسیع حکومت پاکستان کرتی ہے اور حکومت پاکستان کا مطلب ہے وزارت دفاع اور پارلیمنٹ۔ اس کا قطعی مطلب آرمی چیف نہیں ہے۔ یہ وہ قوانین ہیں جن کی ہمیشہ سے پیروی کی جاتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل کیانی اپنے ادارے کو سویلین اداروں سے بالا تر سمجھتے ہیں۔"

عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ امریکہ سیاسی حکومت سے مایوس ہو کر اپنے مفادات کے لئے اب پاکستانی فوج کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی حکومت نے اپنے اوپر دباؤ کم کرنے کے لئے اس مدتِ ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے جنرل کیانی کو بھی مدت ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی ہے اور امریکہ بھی یہی چاہتا ہے کہ کیانی پاشا ٹیم رہے۔ " کیانی صاحب کو حکومت نے جو مدتِ ملازمت میں توسیع کی پیش کش کی ہے، اس کے پیچھے بھی یہ ہے کہ امریکہ کیانی پاشا ٹیم کو رکھنا چاہتا ہے۔"

عائشہ صدیقہ آغا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاستدان بار بار فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور سول اداروں کی برتری کے لئے متحد نہیں ہوتے۔ ان کے بقول ملک میں اس وقت تمام اہم معاملات میں فوج کو عمل دخل حاصل ہے۔ "اس وقت ملک کی اندرونی اور خارجہ پالیسیاں فوج کے کنڑول میں ہیں۔ فوج کرسی صدارت پر تو نہیں بیٹھی، باقی تمام اہم فیصلے ان ہی کے زیر اثر ہوتے ہیں۔"

کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے اور پارلیمان کی برتری کو عملا ثابت بھی کرنا چاہیے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک