1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ پاکستانی حکومت: علامتی اقدامات یا ٹھوس پالیسیاں

شیراز راج
8 اگست 2018

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے مستقبل میں وزیر اعظم ہاؤس میں قیام نہ کرنے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں کرپشن کے خلاف اقدامات سمیت محض علامتی نہیں بلکہ ٹھوس فیصلے کرنا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/32qqx
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/M. Reza

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نعیم الحق کے ملکی اخبارات کو دیے گئے ایک بیان کے مطابق پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم عمران خان شاہراہ دستور پر واقع وزیر اعظم ہاؤس یا اسپیکر ہاؤس میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس کی ایک انیکسی میں رہیں گے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملکی سکیورٹی اداروں نے بنی گالہ میں واقع عمران خان کے گھر اور اسپیکر ہاؤس کو غیر محفوظ قرار دے دیا ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کے اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ اخبارات کے کالم نگار، ٹی وی اینکرز اور سماجی تنظیموں سے وابستہ افراد اسے ایک مثبت علامتی قدم قرار دے رہے ہیں جبکہ ناقدین کی نظر میں یہ محض ایک سیاسی فیصلہ ہے جسے مبینہ طور پر اپنے اصولوں پر کیے جانے والے سمجھوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس بحث سے قطع نظر اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عمران خان کے اس فیصلے سے ملکی خزانے کو سالانہ ایک ارب پچاسی کروڑ روپے تک کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد میں موجودہ وزیر اعظم ہاؤس کا افتتاح سابق وزیر اعظم نوازشریف نے قریب دو دہائی قبل اپنے دوسرے دور حکومت کے آغاز پر کیا تھا۔ شاہراہ دستور پر واقع اس عالیشان عمارت کا رقبہ 135 ایکڑ ہے، جس میں پانچ کشادہ لان، ایک پھلوں کا باغ، متعدد سوئمنگ پولز، ایک ضیافت گاہ، ایک کمیٹی روم، میڈیا روم، 10 سرونٹ کوارٹرز اور سکیورٹی افسروں کی رہائش گاہیں وغیرہ بھی ہیں۔ اس دفتر میں پچاس پروٹوکول افسر کام کرتے ہیں۔ اتنے رقبے میں قائد اعظم یونیورسٹی کے رقبے کے برابر والی (جو پینتیس ایکڑ پر قائم ہے) چار یونیورسٹیاں قائم ہو سکتی ہیں۔

ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں وزیر اعظم ہاؤس کے ملازمین کی تعداد بھارت کے پرائم منسٹر ہاؤس کے ملازمین کی تعداد سے زیادہ ہے حالانکہ اپنی آبادی میں بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ہے۔ بھارتی پرائم منسٹر ہاؤس میں لگ بھگ 400 افراد کام کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم ہاؤس میں 700سے زائد افراد کام کرتے ہیں۔ امریکا اور بھارت میں یہ معلومات سرکاری ویب سائٹس پر شائع کی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا کرنا لازمی نہیں۔

پاکستان میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے سرکاری گھروں کے اخراجات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ ہاؤس کا سالانہ بجٹ تیس کروڑ چوبیس لاکھ روپے ہے جبکہ وہاں 325 سرکاری ملازمین کام کرتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا رپورٹوں کے مطابق پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کا روزانہ خرچہ قریب تیس لاکھ روپے بنتا ہے۔

گزشتہ بجٹ کے مطابق پنجاب کے گورنر ہاؤس کے اخراجات کا سالانہ تخمینہ تیس کروڑ بیس لاکھ روپے جبکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کا سالانہ خرچ قریب چالیس کروڑ نوے لاکھ روپے بنتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے دو ہزار چودہ اور دو ہزار پندرہ کے دوران چار کروڑ روپے کے تحائف تقسیم کیے جبکہ اسی عرصے کے دوران گورنر سردار مہتاب احمد خان نے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کے تحائف تقسیم کیے۔

پاکستان کے معروف صحافی مجاہد حسین نے ملک کی سیاسی اور حکمران اشرافیہ کی بدعنوانی پر چار کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے آئندہ وزیر اعظم ہاؤس منتقل نہ ہونے کے فیصلے کے مثبت نفسیاتی اثرات تو مرتب ہوں گے اور اس سے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے تاہم یوں کرپشن میں کمی نہیں ہو گی۔

مجاہد حسین کے مطابق، ’’صوبے میں وی آئی پی رہائش گاہیں تین ہوتی ہیں اور وفاق میں صدر، وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے علاوہ چیف جسٹس کو بھی وی آئی پی رہائش گاہ دی جاتی ہے۔ ان سب کو جمع کیا جائے تو پورے ملک میں ایسی رہائش گاہوں کی تعداد 20 اور 30 کے درمیان ہو گی۔ ان رہائش گاہوں کے خاتمے سے آپ سادگی اور کفایت شعاری کا درس تو دے سکتے ہیں لیکن ایسے فیصلے ٹھوس معاشی پالیسیوں کا متبادل تو نہیں ہو سکتے۔‘‘

’پورے انتخابی عمل کے نتائج قابل اعتبار ہیں،‘ ميشائيل گالر

مجاہد حسین کے خیال میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے عوامی وسائل کا ضیاع اس وقت رکے گا جب حکومت اور ریاست کے معاملات میں شفافیت پیدا ہو گی اور سب کچھ عوام اور میڈیا کی طرف سے جانچ پڑتال کے لیے کھلا ہو گا۔ انہوں نے کہا، ’’سرکاری معاہدوں، ترقیاتی منصوبوں، اسلحہ کی خریداری کے سمجھوتوں اور درآمدات اور برآمدات کے ٹھیکوں میں شفافیت پیدا کی جانا چاہیے۔ اس وقت تو ہمیں سی پیک کا کچھ پتہ نہیں کہ کیا فیصلے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح اندرون ملک اصل کرپشن انتظامی اداروں اور محکموں کی بیوروکریسی کرتی ہے۔ اس پر بھی ہاتھ ڈالنا ہو گا۔‘‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے جوڑ توڑ پر قریب سے نظر رکھنے والے عقیل عباس جعفری نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہر عمارت اپنے مخصوص مقاصد کے تحت ہی ڈیزائن کی جاتی ہے۔ اسے تبدیل یا دوبارہ تعمیر کرنے پر اکثر اس قدر اخراجات آتے ہیں کہ کفایت شعاری کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ہم کراچی کے ایک کالج کے ہاسٹل کو ایک ڈیپارٹمنٹ میں تبدیل کیا گیا، تو بھی ہمیں یہی تجربہ حاصل ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ وزیر اعظم ہاؤس ریڈ زون میں واقع ہے اور وہاں کوئی پبلک بلڈنگ بنانے سے پہلے کئی پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ وہاں خرچے کی ایک بہت بڑی مد وہ ملازمین ہیں، جنہیں برطرف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں