1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئمہ پر جاسوسی کا شبہ، جرمن پولیس کے چھاپے

عابد حسین
15 فروری 2017

جرمن پولیس نے چار مختلف مقامات پر واقع مساجد کے آئمہ کے گھروں پر چھایے مارے ہیں۔ ان پر جاسوسی کا شبہ ہے۔ خیال ہے کہ یہ آئمہ ترک مہاجرین اور تارکینِ وطن کی جاسوسی انقرہ حکومت کے لیے کرتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2Xb1g
Deutschland Hessen - Durchsuchungen wegen Terrorverdachts
تصویر: Getty Images/T. Lohnes

جرمنی کے وفاقی دفتر استغاثہ اور وزیر انصاف نے تصدیق کی ہے کہ پولیس نے چار مختلف مساجد کے اماموں کے اپارٹمنٹس پر چھاپے مار کر تلاشی لی ہے۔ ان آئمہ پر شبہ ہے کہ وہ انقرہ حکومت کے لیے جاسوس کرتے تھے کہ ترک تارکین وطن میں کون کون امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کا حامی ہونے کے ساتھ ساتھ عملی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔

جرمن پولیس کے یہ چھاپے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے وفاقی صوبوں میں مارے گئے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انقرہ حکومت کے حامی آئمہ پر چھاپوں سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ممالک جرمنی اور ترکی کے درمیان انتہا پسندوں کے علاوہ مہاجرین کے معاملے پرمزید تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔

جرمنی کے دفتر استغاثہ کے مطابق جن آئمہ کے اپارٹمنٹس کی تلاشی لی گئی ہے، اُن کو انقرہ حکومت کے مذہبی ادارے دیانت نے گزشتہ برس بیس ستمبر کو ایک خط کے ذریعے ہدایت کی تھی کہ وہ اُن افراد پر نظر رکھیں جو گولن کی مذہبی و سماجی تحریک خمت کے حامی ہیں یا ہمدردی رکھتے ہیں۔ جرمنی میں ترک تارکین وطن کی مساجد کے لیے اماموں کی تنظیم دیتب (Ditib) کہلاتی ہے۔

Deutschland Hessen - Durchsuchungen wegen Terrorverdachts
جرمنی میں چار مساجد کے اماموں پر ترک حکومت کی جاسوسی کرنے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہےتصویر: Getty Images/T. Lohnes

جرمن وزیر انصاف ہائیکو ماس کے مطابق مشتبہ چاروں امام دیتیب کے رکن ہیں۔ جرمنی کی ترک مساجد کے لیے دیتیب ہی کسی امام کا انتخاب کر کے اُسے ترکی میں تعینات کرتی ہے۔ جرمنی میں ترکی سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی تعداد تیس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ماس نے اس کا اعتراف کیا کہ جرمنی میں فعال آئمہ کی تنظیم دیتیب پر ترک حکومت کا اثر بہت زیادہ ہے۔

جرمن دفتر استغاثہ نے گزشتہ ماہ اس معاملے کی چھان بین شروع کی تھی کہ ترک تارکین وطن میں انقرہ حکومت کے خفیہ ادارے کس حد تک فعال ہیں۔ یہ چھان بین ایک رکنِ پارلیمنٹ کی شکایت پر شروع کی گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی یورپ میں مخبروں کا ایک نیٹ ورک قائم کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ہزاروں ترک باشندوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کروائی تھیں۔