1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پھنسے مایوس شامی مہاجر وطن واپس جانے کو تیار

صائمہ حیدر
30 اکتوبر 2016

یونان میں پھنسے دیگر ہزاروں شامی افراد کی طرح شام کے شہر حلب سے تعلق رکھنے والے عدن نامی نوجوان کا بھی وہ خواب چکنا چور ہو گیا ہے جو اُس نے یورپ میں اپنے سنہری مستقبل کے حوالے سے دیکھا تھا۔

https://p.dw.com/p/2Rthd
Griechenland Flüchtlinge auf dem Weg zurück nach Syrien
 اِن میں سے بعض افراد کو جرمنی میں سیاسی پناہ کے کاغذات بھی مِل چکے تھے تاہم اِن افراد کا کہنا یہ ہے کہ وہ جرمنی کے ماحول میں ضم نہیں ہو سکےتصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
Griechenland Flüchtlinge auf dem Weg zurück nach Syrien
 اِن میں سے بعض افراد کو جرمنی میں سیاسی پناہ کے کاغذات بھی مِل چکے تھے تاہم اِن افراد کا کہنا یہ ہے کہ وہ جرمنی کے ماحول میں ضم نہیں ہو سکےتصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis

عدن اپنے تین بچوں، بیوی اور چند رشتہ داروں سمیت یونان اور ترکی کی سرحد کے قریب’ ڈیڈوموتیخواں‘ گاؤں کے اسٹیشن پر کچھ دیر قبل ہی پہنچا ہے۔ کچھ دیر میں یہ سب لوگ پولیس چیک پوسٹ سے گزریں گے تاکہ شام واپس جانے کے لیے ترکی میں داخل ہو سکیں۔

 خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے عدن کاکہنا تھا ،’’ میں شام واپس جانا چاہتا ہوں۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرے ملک میں جنگ ہو رہی ہے لیکن یہاں یونان میں بھی ہم سات ماہ سے قیدیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔ ہم کئی ماہ سے سڑکوں پر  ہیں۔ یونان پہنچنے پر ہم تین ماہ ایڈومنی کیمپ میں رہے، اس امید پر کہ ہم یونان مقدونیہ سرحد پار کر کے جرمنی کی طرف جا سکیں گے۔‘‘

عدن نے بتایا کہ کس طرح دس ہزار کے قریب تارکینِ وطن کو نا مناسب حالات میں ایک عارضی کیمپ میں رکھا گیا اور پھر رواں برس مئی میں اِس کیمپ کو بھی ختم کر کے  مہاجرین کو قریبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا۔ عدن اور اُس کے خاندان نے تب ایتھنز واپس آنے سے پہلے ایڈومنی کے قریب واقع  یونان کے ایک اور اہم شہر تھیسا لونیکی میں قسمت آزمانے کی کوشش کی۔

Griechenland Flüchtlinge auf dem Weg zurück nach Syrien
 تارکینِ وطن کے لیے اب آخری اُمید یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرنا ہے لیکن  اِس کا طریقہء کار بھی طویل ہےتصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis

عدن کا کہنا تھا،’’ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم سرحدیں بند ہونے سے درمیان میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے ملک شام واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے اُس معاہدے کے بعد سے قریب ساٹھ ہزار مہاجرین یونان میں پھنسے ہوئے ہیں، جس کے مطابق ترکی سے یونان آنے والے مہاجرین کو منظم طریقے سے واپس ترکی بھیجا جانا طے پایا ہے۔

ستمبر سن دو ہزار پندرہ میں یورپی یونین نے یہ عہد کیا تھا کہ دو سال کے عرصے میں یونان سے چھیاسٹھ ہزار چار سو تارکینِ وطن کو منتقل کیا جائے گا تاہم گزشتہ تیرہ ماہ میں صرف چار ہزار نو سو چھبیس مہاجرین کو یونان سے دوسرے یورپی ممالک میں بھیجا گیا ہے۔

 تارکینِ وطن کے لیے اب آخری اُمید یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرنا ہے لیکن  اِس کا طریقہء کار بھی طویل ہے۔ یونان خود مالی بحران کا شکار ہے اور تمام یورو زون میں بے روز گاری کی شرح سب سے زیادہ یونان میں ہی ہے۔ یونان اور ترکی کی سرحد پر واقع گاؤں’ ڈیڈوموتیخواں‘ کے اسٹیشن پرحالیہ ہفتوں میں درجنوں تارکین وطن روزانہ کی بنیاد پر پہنچے ہیں۔

ڈسکہ کا خزیمہ نصیر: بہتر یورپی زندگی کے خواب کی ڈراؤنی تعبیر

 اِن میں سے بعض افراد کو جرمنی میں سیاسی پناہ کے کاغذات بھی مِل چکے تھے تاہم اِن مایوس افراد کا کہنا یہ ہے کہ وہ جرمنی کے ماحول میں ضم نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب یونان چھوڑ کر اپنے ملکوں کو واپس جانے والے مہاجرین کے ساتھ ساتھ ترکی سے یونان کا رخ کرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں بھی حالیہ کچھ ماہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یونان میں پولیس کا کہنا ہے کہ رواں برس جولائی کے بعد سے ستّر کے قریب انسانی اسمگلروں اور ایک ہزار تارکینِ وطن کو گرفتار کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس مارچ کے مہینے میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ چکی ہے۔ لیکن معاہدے سے قبل ہزارہا تارکین وطن یونان پہنچ چکے تھے جو مغربی یورپ جانے کے راستے بند ہو جانے کے باعث ابھی تک یونان ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔