1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پاکستانی مہاجرین: مسائل تو ہیں، پاکستانی سفیر

5 فروری 2018

یونان میں تعینات پاکستانی سفیر خالد محمود قیصر نے ایسی خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت یونان سے رضا کارانہ طور پر واپس وطن جانے والے پاکستانی مہاجرین کو خدمات فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔

https://p.dw.com/p/2s8l7
Syrisches Flüchtlingsmädchen am Strand von Lesbos
تصویر: Reuters

پاکستان سے مہاجرت اختیار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے افراد کی یورپ میں پہلی منزل عمومی طور پر یونان ہی ہوتا ہے۔ یہ مہاجرین پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران سے ہوتے ہوئے پہلے ترکی پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے بحیرہ ایجیئن کے پُرخطر سمندری راستے سے یونان جاتے ہیں۔ یونان پہنچ کر پھر یہ دیگر یورپی ممالک کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمیں واپس پاکستان جانا ہے، یونان میں محصور پاکستانی مہاجرین

ایتھنز: نو عمر پاکستانی جسم فروش، حقیقت یا افسانہ؟

یونان: پاکستانیوں سمیت مزید تارکین وطن کی ترکی ملک بدری

پاکستانی تارک وطن، جسے یورپ نے دوسری مرتبہ بھی مایوس کیا

تاہم حالیہ عرصے کے دوران بلقان کے ممالک نے اپنے سرحدی راستے بند کر دیے ہیں، جس کے باعث پاکستانی مہاجرین کے علاوہ افغانستان، عراق اور شام سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن اور مہاجرین بھی یونان محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

یونان میں مہاجرین کے لیے ناکافی سہولیات اور ملازمتوں کے مواقع کی عدم موجودگی کے باعث بہت سے ایسے تارکین وطن کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں، جو صرف اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرتے ہوئے یورپی یونین کے اس رکن ملک میں پہنچے تھے۔

بالخصوص پاکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد مہاجرین اس صورتحال میں واپس وطن جانے کے خواہش مند ہیں۔ یونان میں مقیم کئی پاکستانی مہاجرین اپنے خرچے پر ہی واپس جا رہے ہیں جبکہ کچھ اس مقصد کی خاطر بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے ایک خصوصی پروگرام سے استفادہ کر رہے ہیں۔

تاہم گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں عام ہوئیں کہ اس عالمی ادارے نے پاکستانی مہاجرین اور تارکین وطن کو مدد فراہم کرنے کا سلسلہ معطل کر دیا ہے۔ اس تناظر میں یونان میں پاکستانی سفیر خالد قیصر کے حوالے سے پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں بھی عام ہوئی تھیں کہ انہوں نے اسلام آباد میں ملکی وزارت خارجہ کو لکھے گئے ایک خط میں یونان میں مقیم پاکستانی مہاجرین کی ابتر صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی او ایم اب پاکستانی مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی میں مدد فراہم کرنے سے گریزاں ہے۔

اس بارے میں حقائق جاننے کی خاطر جب ڈی ڈبلیو نے یونان میں پاکستانی سفیر خالد محمود قیصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان خبروں کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئی او ایم صرف نابالغ افراد اور بچوں کو ڈی پورٹ کرنے میں مدد فراہم نہیں کرتا کیونکہ یہ اس ادارے کے ضوابط کے خلاف ہے۔

پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ یونان سے واپسی کے راستے مسدود ہو جانے کے باعث پاکستانی تارکین وطن کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ غربت اور لاچاری کے باعث کئی نابالغ پاکستانی تارکین وطن ’جسم فروشی‘ پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستانی حکام ان کی مدد نہیں کر رہے۔

مہاجرت: یونان سے نکلنے کی غیرقانونی کوشش

یونان سے واپس جانے والے پاکستانی مہاجرین کی مالی مدد

یونان سے ترکی ملک بدر ہونے والوں میں پاکستانی سرفہرست

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں خالد محمود قیصر نے کہا کہ یونان میں پاکستانی کمیونٹی اور تارکین وطن کے لیے مسائل بہرحال ہیں اور وہ انہیں حل کرنے اور پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو بہتر بنانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ اقتصادی مقاصد کی خاطر مہاجرت اختیار کرنے والے پاکستانیوں کو یونان پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی صورتحال ایسی نہیں، جیسا وہ سوچ کر یونان پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجرت کا خطرناک سفر اختیار کرنے سے پہلے سوچنا ضرور چاہیے کیونکہ اس میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت نے ایک پروگرام شروع کر رکھا ہے، جس کے تحت وہ رضا کارانہ طور پر واپس اپنے ممالک لوٹنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو واپسی کا ٹکٹ اور کچھ رقم دیتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ سہولت بھی دی جاتی ہے کہ اگر وہ واپس اپنے وطن جا کر کوئی کاروبار شروع کرنا چاہیں، تو انہیں کچھ اضافی مالی مدد بھی فراہم کی جائے گی۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے کئی تارکین وطن بھی اس پروگرام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس اپنے ملک روانہ ہو چکے ہیں یا جانے کی تیاری میں ہیں۔ ایتھنز میں کئی پاکستانی تارکین وطن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ یونان میں پاکستانی سفارت خانہ انہیں بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے اور وہ آئی او ایم کے اس پروگرام کے تحت واپس وطن لوٹنے کی تیاری میں ہیں۔

مہاجرین کا دل بہلاتا پاکستانی تارک وطن