1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پاکستانی مہاجر نے ہم وطن مہاجر کو گولی مار دی

عاطف بلوچ31 مئی 2016

یونان میں ایک پاکستانی مہاجر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ اس کی حالت تشویشناک نہیں ہے جبکہ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ واقعہ مقدونیہ کے ساتھ سرحد کے قریب پیش آیا۔

https://p.dw.com/p/1IxiL
Griechenland Behörden beginnen mit Räumung des Flüchtlingslagers in Idomeni
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Grdanoski

خبر رساں ادارے اے پی نے یونانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مقدونیہ کی سرحد کے قریب واقع ایک عارضی مہاجر کیمپ میں ایک پاکستانی مہاجر پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گیا۔

اس انیس سالہ پاکستانی کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن اتنا ضرور بتایا گیا ہے کہ اسے ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ طبی حکام نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس کی زندگی خطرے سے باہر ہے۔

منگل اکتیس مئی کے روز پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ ایک عارضی مہاجر کیمپ میں اس وقت پیش آیا، جب اس مہاجر کا ایک دوسرے پاکستانی تارک وطن سے جھگڑا ہو گیا۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی حملہ آور کی شناخت نہیں ہو سکی۔

یونانی پولیس کے مطابق اس حملے کے محرکات جاننے کے لیے تفتیش شروع کر دی گئی ہے جبکہ حملہ آور کی تلاش بھی جاری ہے۔

جس مہاجر کیمپ میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں تقریباﹰ تین سو مہاجرین عارضی رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایڈومینی کا مہاجر کیمپ خالی کرانے کے بعد بہت سے مہاجرین مقدونیہ کے ساتھ سرحد کے قریب واقع اس عارضی یونانی کیمپ میں منتقل کر دیے گئے تھے۔

ایڈومینی کا مہاجر کیمپ بھی مقدونیہ کی سرحد کے قریب ہی واقع تھا۔ ان مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح مقدونیہ میں داخل ہو سکیں تاکہ وہاں سے وہ مغربی یا وسطی یورپی ممالک کا رخ کر سکیں۔ اسی لیے یہ مہاجرین مقدونیہ کی سرحد سے دور جانے سے گریزاں ہیں۔

دوسری طرف آج منگل کے دن ہی شمالی یونان میں واقع ایک اور مہاجر کیمپ آتشزدگی کی لپیٹ میں بھی آ گیا، جس کی وجہ سے چار شامی مہاجر زخمی ہو گئے۔ طبی حکام نے بتایا ہے کہ ان مہاجرین کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

یونان کے ہمسایہ ممالک کی طرف سے رواں برس کے اوائل میں اپنی قومی سرحدیں بند کر دیے جانے کے باعث اس ملک میں پھنسے مہاجرین کی تعداد پچاس ہزار ہو چکی ہے۔ ایتھنز حکومت کا کہنا ہے کہ اسے مہاجرین کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے دیگر ممالک کی مدد درکار ہے۔

یورپی یونین اور انسانی حقوق کے متعدد اداروں نے ایسے ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جنہوں نے اپنے ہاں مہاجرین کی آمد کو روکنے کی خاطر اپنی قومی سرحدوں اور ان پر قائم کردہ سرحدی گزرگاہوں کو بند کر رکھا ہے۔

’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘