یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔