1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان سے بہت کم مہاجرین ترکی واپس بھیجے جا سکیں گے

صائمہ حیدر
12 فروری 2018

یونان میں سياسی پناہ سے متعلق سروس کی سابق سربراہ کے مطابق ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کی متنازعہ ڈیل کے باوجود یونان پہنچنے والے محض سولہ فیصد مہاجرین کو ہی امکاناﹰ ترکی واپس بھیجا جا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/2sVTD
Griechenland Athen Flüchtlinge im Hungerstreik
یو این ایچ سی آر کے ترجمان کے مطابق لیسبوس جزیرے پر قائم موریا کیمپ میں مہاجرین کی حالت قابل تشویش ہےتصویر: Jamshid Azizi

سياسی پناہ سے متعلق سروس کی سابق سربراہ ماریا سٹراووس پولو نے یونان کے ایک اخبار کو بتایا کہ ایسے مہاجرین کی تعداد بہت ہی کم ہے جو اپنے آبائی ممالک واپس جانا چاہتے ہیں یا جو پناہ کی دائر درخواستوں سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

سٹراووس پولو کا کہنا تھا کہ اب تک 2200 شامی مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکتا ہے لیکن یہ وہ ہیں جنہوں نے پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد اپیل کر رکھی ہے اور جس پر کارروائی بہت سست رو ہے۔

یہ صورت حال ترکی اور یورپی یونین کے مابین سن 2016 میں مہاجرین کے حوالے سے ہونے والے اس معاہدے کے باوجود ہے جس کی رُو سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو ترکی واپس بھیجا جانا تھا اور اس مقصد کے لیے ترکی کو دیگر مراعات کے علاوہ اقتصادی امداد فراہم کرنا طے پایا تھا۔

اس ڈیل کے بعد سے بُحیئرہ ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ تاہم ماریا سٹراووس پولو کے مطابق یونان، یورپی ہدایات پر مبنی قانون سازی کے سبب مہاجرین کی بڑی تعداد کو ترکی واپس نہیں بھیج سکا ہے۔

ماریا سٹراووس پولو کا کہنا تھا،’’ ہم پر قانون کا احترام لازم ہے۔ یہ سیاسی فیصلہ نہیں۔‘‘

Griechenland Flüchtlinge protestieren in Thessaloniki
تصویر: picture alliance/dpa/NurPhoto/E. Economou

ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین کی ڈیل پر عمل درآمد کو مزید موثر بنانے کے لیے سٹراووس پولو نے ’یورپین اسائلم سپورٹ آفس‘ کے ماہرین پر زور دیا کہ وہ یونان کے ساتھ مل کر کام کریں۔

جمعے کے روز عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے کہا تھا کہ یونان میں ناقص درجے کے اور گنجان آباد مہاجر کیمپوں میں پناہ گزینوں کو وسیع پیمانے پر جنسی تشدد اور ہراسگی کا سامنا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان نے بھی کہا تھا کہ لیسبوس جزیرے پر قائم موریا کیمپ میں مہاجرین کی حالت خاص طور پر قابل تشویش ہے۔ لیسبوس جزیرے پر قائم موریا کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ تارکین وطن کو رہائش فراہم کی گئی ہے۔

گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں ایتھنز حکام نے موریا کیمپ سے ساڑھے سولہ سو تارکین وطن کو دیگر یونانی شہروں میں منتقل کیا تھا تاہم اس کے باوجود اس وقت بھی اس کیمپ میں پینتیس سو سے زائد تارکین وطن مقیم ہیں۔ جب کہ کیمپ میں تئیس سو افراد کی گنجائش ہے۔

علاوہ ازیں اس حراستی مرکز میں رہنے پر مجبور تارکین وطن کو اپنی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیے جانے تک رہنا پڑتا ہے اور اس عمل میں کئی مہینے گزر جاتے ہیں۔