1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی پناہ گزینوں سے متعلق کمزور پالیسی

اوٹے شیفر/ کشور مصطفیٰ9 اکتوبر 2013

اٹلی کے جزیرے لامپے ڈُوسا کے سانحے کے بعد یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں انہوں نے یورپ کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیوں پر غور و خوص کیا۔ تاہم یہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے۔

https://p.dw.com/p/19wm7
تصویر: picture alliance/AP Photo

ڈوئچے ویلے کی اوٹے شیفر کے مطابق اس طرح یورپی یونین کے رکن ممالک نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پالیسی وضع کرنے کے ایک نئے آغاز کا موقع گنوا دیا ہے۔

سیاست اور حقیقت کا اکثر ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسا ہی کچھ لامپے ڈوسا میں پناہ گزینوں کی ایک کشتی غرق ہونے کے حالیہ سانحے کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ یہ ایک ناقابل برداشت تضاد ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب یورپ کے ساحلوں پر کشتی حادثوں کے سبب لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یورپی سیاست دان برسلز میں ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تارکین وطن سے متعلق نئی پالیسیاں وضع کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ دریں اثناء اُدھر لامپے ڈوسا کے اس افسوسناک حادثے کا شکار ہو کر اس دنیا سے رُخصت ہو جانے والوں کی تعداد بڑھ کر 270 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ نہیات بزدلی اور غیر اخلاقی امر ہے اور یہ کوتاہ بینی بھی ہے کیونکہ افریقہ اور یورپ کی سرحدیں لامپے ڈوسا ہی پر ایک دوسرے سے جدا ہوتی ہیں، دونوں بر اعظموں کے بیچ یہ سمندری فاصلہ بمشکل 100 کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کل کو ایک نیا سانحہ رونما ہو سکتا ہے اور یورپ اس سے چشم پوشی کر رہا ہوگا۔

Italien EU Flüchtlinge EU-Kommissionspräsident Jose Manuel Barroso auf Lampedusa
یورپی کمیشن کے صدر باروسو نے کشتی غرق ہونے کے حادثے کے بعد لامپے ڈوسا کا دورہ کیاتصویر: picture-alliance/dpa

غربت، جنگ اور تشدد انسانوں کو نقل مکانی پر مجبور کر رہے ہیں

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ غربت سے فرار حاصل کرنے کی غرض سے لوگ نقل مکانی کرتے ہیں اور غربت نہ تو خود ساختہ ہوتی ہے نہ ہی اسے کوئی اپنے لیے منتخب کرتا ہے۔ غربت کی وجہ جنگ، تشدد اور بدعنوانی ہوتی ہے۔ یورپ میں غربت کی وجہ تجارتی راہ میں حائل رکاوٹیں، محصولات اور کھپت یا صرف ہے۔ جس کسی کا بھی کبھی افریقی ملک نائجیریا یا سینیگال کے ان افراد سے واسطہ پڑا ہو، جو مراکش یا لیبیا سے بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں غیر قانونی طور پر مقیم ہوتے ہیں، صرف وہی بتا سکتا ہے کہ بہتر زندگی کے خواہش مند یہ لوگ ہر قیمت پر کشتی میں بیٹھ کر یورپ آنا چاہتے ہیں۔ اُسے یورپ کی طرف رُخ کرنے والے اور چند ہفتوں میں بے ننگ و نام غرق سمندر ہونے والے ان افراد کی بے چینی اور اضطراب کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

Italien Lampedusa Schiffsunglück
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 270 بتائی جا رہی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

ہر کوئی خود اپنا ہمسایہ ہے

یورپی یونین کے وزرائے داخلہ نے ایک واضح فیصلہ کیا ہے وہ یہ کہ یورپی بحری سرحدوں کے محافظ دستے ’فرونٹکس‘ کو یورپی سرحدوں سے اور کافی آگے بحر اوقیانوس میں تعینات کیا جائے اور اس طرح اطالوی بحری سرحدوں کو محفوظ کر لیا جائے۔ اس سے یورپی سیاست دان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ اقدامات مجرموں یا قزاقوں سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔ اس ضمن میں وفاقی جرمن وزیر داخلہ فریڈرش نے چند اہم مشورے دیے ہیں۔ یعنی اسمگلنگ کی روک تھام اور افریقی ممالک میں صورتحال بہتر بنانے کی کوشش۔ تاہم جرمن وزیر ان دو اہم نقطوں پر مزید روشنی ڈالنے کے بجائے اس سارے معاملے کو ایک نئی بحث میں الجھا رہے ہیں۔ انہوں نے یورپی یونین میں شامل ممالک میں غربت کی منتقلی کے موضوع پر بحث چھیڑ دی ہے۔

Flüchtlinge in Griechenland
پناہ کے متلاشی افراد کی صورتحال دیگر یورپی ممالک میں بھی ناگفتہ بہ نظر آتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یورپ کے سب سے امیر ملک میں غربت کا مظاہرہ

یورپ کے ایک بڑے ملک جرمنی میں گزشتہ برس سیاسی پناہ کے متلاشی افرادکی تعداد 70 ہزار رہی، جو یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جرمنی 80 ملین نفوس کے ساتھ آبادی کے اعتبار سے یورپ کا ایک متوسط ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دینے والا ایک بڑا ملک سویڈن بھی ہے، جہاں فی ایک ملین آبادی پناہ کی تلاش میں درخواست دہندگان کی تعداد 4625 بتائی جاتی ہے۔ اس معاملے میں اٹلی جرمنی سے کافی پیچھے ہے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پناہ گزینوں سے متعلق نئی پالیسی وضع کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا۔ شام کا حالیہ بحران ہو یا اطالوی ساحلی علاقے میں پناہ کے متلاشی افراد کی آمد کا مسئلہ، یورپ کی سب سے مضبوط اقتصادی قوت ملک جرمنی نے اب تک فراخ دلی کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ خوشحال، ثروتمند جرمنی میں اسے بہت غربت کا مظہر ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔