1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی صدارت اور اعلیٰ نمائندوں کے ساتھ اشتراک عمل

7 جنوری 2010

2009 کی دوسری ششماہی میں سویڈن کے بعد یکم جنوری سے یورپی یونین کی ششماہی صدارت اسپین کو منتقل ہو چکی ہے۔ اسپین کو یہ ذمہ داریاں یونین کے دو نئے لیکن مستقل اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ مل کر انجام دینا ہوں گی۔

https://p.dw.com/p/LMjo
یونین کے نئےصدر ملک اسپین کے وزیر اعظم ساپاتیروتصویر: AP

ان میں سے ایک یونین کی کونسل کے مستقل سربراہ یا عرف عام میں یونین کے صدر کہلانے والے ہیرمان فن رومپوئے ہیں اور دوسری یونین کے خارجہ سیاسی امور کی نگران خاتون عہدیدار کیتھرین ایشٹن۔ میڈرڈ میں اسپین کی سیاسی قیادت کو توقع ہے کہ اس کا یورپی یونین کے ان نئے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اشتراک عمل بہت کامیاب رہے گا۔

Schweden EU Präsidentschaft Fredrik Reinfeldt und die EU Kommission Gruppenbild
سویڈن کے وزیراعظم فریڈرک رائن فیلڈ یورپی اتحاد کے رکن ممالک کے وزراء کے ہمراہ سٹاک ہولم میں اتحاد کی ششماہی صدارت سنبھالنے کے موقع پرتصویر: AP

تبدیلیوں سے بھرپور 2009 کی دوسری ششماہی

یورپی یونین میں گزشتہ برس کی دوسری ششماہی میں کتنی زیادہ بڑی بڑی تبدیلیاں آئیں، اس کا اندازہ لگانے کے لئے یورپی امور کی سویڈش وزیر سیسیلیا مالشٹروم کے اس بیان کا جائزہ لیا جانا چاہیے جو انہوں نے جون 2009 کے آخر میں دیا تھا اور جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ سویڈن کی طرف سے یورپی یونین کی صدارت کے عرصے میں کون کون سے معاملات سب سے اہم ہوں گے۔

تب مالشٹروم نے کہا تھا: "ہم سب جانتے ہیں کہ یونین کی صدارت کا یہ عرصہ انتہائی مشکل ہو گا۔ نئی یورپی پارلیمان منتخب کی جا چکی ہے۔ یورپی کمیشن میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ یورپی یونین میں اداروں کی سطح پر اصلاحات کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئرلینڈ میں ایک نیا ریفرینڈیم بھی کرایا جائے۔ اور پھر اقتصادی بحران بھی اپنی جگہ ہے۔"

Vereidigung von Herman Van Rompuy Neuer Premierminister Belgien
یورپی یونین کے صدر ہیرمان فان رومپوئےتصویر: AP

معاہدہ لزبن کا نفاذ

لزبن معاشی بحران کی صورت حال اب اتنی ڈرامائی نہیں جتنی گزشتہ برس جون میں تھی۔ یورپی یونین میں اصلاحات کے وسیع تر پروگرام کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال بھی ختم ہو چکی ہے کیونکہ یونین میں جامع اصلاحات کا ضامن لزبن کا معاہدہ عملی طور پر نافذ ہو چکا ہے۔ اسی لئے اسپین وہ پہلا ملک ہے جسے اپنے عرصہ صدارت کے دوران ہیرمان فن رومپوئے اور کیتھرین ایشٹن کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے جنہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو یورپی یونین کے صدر ملک کے طور پر اسپین کی اہمیت تقابلی سطح پرکچھ کم ہوگئی ہے۔ ہسپانوی قیادت کو اس بات کا احساس ہے اور اس نے یونین کے صدر ملک کے طور پر اسپین کی اہمیت میں اس تقابلی کمی کو بخوشی قبول کیا ہے۔

یونین کی مستقل قیادت کی معاونت

ہسپانوی وزیر خارجہ میگوئل موراتینوس کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر حوالے سے کیتھرین ایشٹن کی معاونت کریں گے۔ "کیتھرین ایشٹں کو ہسپانوی وزیر خارجہ کا مکمل اور بھر پور تعاون حاصل رہے گا۔ ہسپانوی وزیر خارجہ ذاتی تجربے، مختلف معاملات کے تاریخی پس منظر یا اسپین کی جغرافیائی حیثیت کے باعث مختلف امور میں کیتھرین ایشٹن کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکہ، شمالی افریقہ اور بحیرہ رَوم کے علاقے میں۔ ان تمام امور میں اشتراک عمل دیکھنے میں آئے گا۔"

Symbolbild zum Thema EU Jerusalem Tempelberg Israel Palästinenser
یروشلم میں واقع تاریخی مسجد اقصیٰتصویر: Berthold Werner

آزاد فلسطینی ریاست کا قیام

خارجہ سیاسی امور میں اسپین کی یہی مخصوص تجربہ کاری یونین کی صدارت کے عرصے کے دوران میڈرڈ کی کوششوں کا خاصا ہو گی۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے بارے میں وزیر خارجہ موراتینوس کی سوچ بہت واضح ہے۔ "میری سوچ، میرا خواب یہ ہے اور میری کوششوں کا محور یہ ہو گا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے محنت کی جائے کہ 2010 میں بالآخر فلسطینیوں کی اپنی ایک خود مختار ریاست قائم ہو جائے۔ ایک ایسی ریاست جو اسرائیل کے ساتھ امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکے۔ اب اور زیادہ انتظار کس لئے؟"

یونین میں توسیع کی حمایت

جہاں تک یورپی یونین میں توسیع کے عمل کا تعلق ہے تو اسپین اس عمل کو روکنے کے بجائے آگے کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اگر ہو سکا تو اسپین کروشیا کی یونین میں شمولیت کے لئے اتفاق رائے اپنے دور صدارت ہی میں حاصل کرنا چاہے گا۔

جہاں تک یونین کی رکنیت کی خواہش مند بلقان کی ریاست سربیا کا سوال ہے تو بلغراد اس لئے بھی خوش ہے کہ اسپین یورپی یونین کے رکن ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جنہوں نے کوسووو کی خود مختار ریاستی حیثیت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ سربیا کا دعویٰ ہے کہ کوسووو ابھی تک اس کا حصہ ہے۔

Immigranten auf den Kanarischen Inseln
ہلال احمر کے رضا کار غیر ملکی تارکین وطن میں خوارک تقسیم کرتے ہوئےتصویر: AP

باسک مسئلے کی وجہ سے اسپین کی مجبوری

برسلز میں جب بھی کوسووو کے بارے میں بات ہوتی ہے توہسپانوی وزیر خارجہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے انہیں تھوڑا سا کونے میں دھکیل دیا گیا ہو۔

موراتینوس کہتے ہیں: "اسپین نے اس معاملے میں ہمیشہ ہی غیر معمولی حد تک تعمیری رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس میں واحد استثناء کوسووو کو ایک آزاد ریاست تسلیم نہ کرنا ہے۔ ہمارے پاس اس کی اپنی قانونی وجوہات ہیں۔"

ہسپانوی وزیر خارجہ کے اس مؤقف کی ایک بڑی وجہ اسپین کا یہ خدشہ ہے کہ کوسووو کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے خود اسپین میں باسک یا کاتالونیا کی علیحدگی پسندی کو ہوا ملے گی۔

اپنے دور صدارت کے دوران اسپین جن دیگر امور پر خاص توجہ دینا چاہتا ہے، ان میں تارکین وطن سے متعلق یورپی حکمت عملی بھی شامل ہے۔ میگوئل موراتینوس کے بقول یورپی یونین کی جنوبی ریاستیں غیر ملکی تارکین وطن کی مسلسل آمد کے باعث کئی طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ ان کا حق بنتا ہے کہ پوری یورپی یونین ان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ غیر قانونی تارکین وطن کی آمد سے بری طرح متاثرہ یورپی ملکوں میں اسپین کے علاوہ اٹلی، مالٹا اور یونان قابل ذکر ہیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق