1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین مشترکہ فوج تشکیل دے، مشرقی یورپی ملکوں کا مطالبہ

مقبول ملک26 اگست 2016

متعدد مشرقی یورپی ملکوں نے جرمنی کے ساتھ اپنے مذاکرات میں ایک مشترکہ یورپی فوج کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ وارسا میں ایک یورپی اجلاس میں سامنے آیا، جس میں بریگزٹ کے بعد کے یورپی مستقبل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1Jqlk
Polen Angela Merkel in Warschau
تصویر: Reuters/K. Pempel

پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے جمعہ چھبیس اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس مشاورتی اجلاس میں شریک یورپی یونین کے رکن ملکوں کے رہنماؤں نے زور دیا کہ وقت آ گیا ہے کہ یہ یورپی بلاک اپنی ایک مشترکہ فوج بھی تشکیل دے۔

اس اجلاس میں چیک جمہوریہ، جرمنی، پولینڈ اور سلوواکیہ کے لیڈروں کے ساتھ اپنی بات چیت کے بعد ہنگری کے دائیں بازو کی حکمران سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے کہا، ’’ہمیں سلامتی امور کو لازمی طور پر اولین ترجیح دینا ہو گی۔ اس کام کا آغاز ایک مشترکہ یورپی فوج کے قیام کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق آج پولستانی دارالحکومت میں ہونے والا یہ پانچ ملکی اجلاس یونین کے رکن دو درجن سے بھی زائد ملکوں کے ان کئی مختلف لیکن غیر رسمی گروپوں کے مابین ہونے والی سلسلہ وار مشاورت کا حصہ ہے، جس میں یورپی یونین کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔

یہ کثیرالجہتی مشاورت اس پس منظر میں کی جا رہی ہے کہ جون میں برطانیہ میں ہونے والے بریگزٹ ریفرنڈم میں ملکی عوام نے برطانیہ کی یورپی یونین میں رکنیت کے آئندہ خاتمے کا جو فیصلہ کیا تھا، اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یورپی یونین کی ایک سربراہی کانفرنس جلد ہی ہونے والی ہے۔

Polen Angela Merkel in Warschau
وارسا اجلاس میں شریک یورپی رہنماؤں کی ایک گروپ فوٹوتصویر: Reuters/K. Pempel

وارسا میں مشاورت کے بعد چیک جمہوریہ کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم سوبوتکا نے کہا، ’’ہمیں اب اس بارے میں اپنی ایک اجتماعی بحث شروع کر دینا چاہیے کہ آیا یورپ کو اپنی ایک مشترکہ فوج بھی قائم کرنا چاہیے۔‘‘

اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی یونین کے رکن ملکوں کے مابین سلامتی کے شعبے میں زیادہ تعاون اور بہتر نتائج کی حمایت تو کی تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یورپ کو اس بارے میں بھی احتیاط سے کام لینا ہو گا کہ ایسے مشترکہ سکیورٹی منصوبوں کو عملی شکل کس حد تک اور کس طرح دی جاتی ہے۔

انگیلا میرکل نے کہا، ’’سکیورٹی ایک کلیدی موضوع ہے۔ ہم یقیناﹰ سلامتی اور دفاع کے شعبے میں مل کر مزید بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘

ساتھ ہی تاہم جرمن سربراہ حکومت نے تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’بریگزٹ (برطانیہ کا یورپی یونین سے آئندہ اخراج) صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہو گا بلکہ یہ یورپی یونین کی تاریخ میں ایک بہت فیصلہ کن موڑ بھی ہو گا۔ اسی لیے ہمیں اپنے ردعمل میں بھی انتہائی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔‘‘

Polen Beata Szydlo empfängt Angela Merkel
پولینڈ کی خاتون وزیر اعظم، دائیں، جرمن چانسلر میرکل کا استقبال کرتے ہوئےتصویر: Reuters/K. Pempel

قبل ازیں برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے یونین مخالف نتائج کے بعد اپنے ایک ابتدائی ردعمل میں مشرقی یورپی ملک پولینڈ کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہائی طاقت ور صدر یاروسلاو کاچِنسکی نے اسی وقت یہ مطالبہ بھی کر دیا تھا کہ یورپی یونین کے اداروں میں اصلاحات لائی جانا چاہییں اور اس بلاک کو رکن ملکوں کی تقریباﹰ ایک ایسی کنفیڈریشن بنا دیا جانا چاہیے،جس کی سربراہی ایک بااختیار یورپی صدر کرے اور جو اس بلاک کی طاقت ور مشترکہ فوج کا اعلیٰ ترین کمانڈر بھی ہو۔

وارسا اجلاس میں یونین کے رکن جن پانچ ملکوں کے رہنماؤں نے شرکت کی، وہ پانچوں (جرمنی، چیک جمہوریہ، پولینڈ، سلوواکیہ اور ہنگری) بھی یونین کی کئی دیگر رکن ریاستوں کی طرح امریکا کی سربراہی میں قائم 28 ملکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں بھی شامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں