1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین مزید تین ارب یورو فراہم کرے، ترکی

امتیاز احمد7 مارچ 2016

یورپی پارلیمان کے سربراہ نے کہا ہے کہ ترکی نے مہاجرین کے بحران میں مدد کے لیے یورپی یونین سے مزید تین ارب یورو کی امداد طلب کی ہے۔ دوسری جانب یورپی رہنما بھی ترک حکومت سے مزید مدد چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1I8rJ
Griechenland Mazedonien Flüchtlinge an der Grenze bei Idomeni
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

ترک وزیراعظم احمد داؤد اولُو آج پیر کے روز یورپی یونین کی قیادت کے ساتھ مہاجرین کے بحران پر بلائے گئے ایک اجلاس میں شریک ہیں۔ اس ملاقات کے تناظر میں یورپی یونین کی شش ماہی صدارت کے حامل ملک ہالینڈ کے وزیراعظم مارک رُوٹے اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل میں طویل ملاقات ہو چکی ہے۔ مارک رُوٹے نے ترکی سے یورپ داخل ہونے والے غیرقانونی تارکین وطن کو روکنے کے معاملے پر محتاط الفاظ میں کسی معاہدے کے طے ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

یورپی یونین کے رہنما چاہتے ہیں کہ ترکی مہاجرین کو اپنے ملک تک ہی محدود رکھے اور ان کے یورپ کی طرف آنے والے راستے مسدود کر دے۔ یورپی سفارت کاروں کے مطابق ترکی نے اضافی رقم کے ساتھ ساتھ دیگر اضافی مطالبے بھی کیے ہیں۔ ترکی نے یورپی یونین سے اپنے شہریوں کے لیے ویزے میں نرمی کا عمل تیز تر کرنے کے ساتھ ساتھ یونین کا رکن بننے کے لیے شرائط نرم کرنے کا کہا ہے۔

سفارت کاروں کے مطابق ترکی یورپی یونین کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنا چاہتا ہے، جس کے تحت وہ ایسے مہاجرین کو یورپ بھیج سکے جنہیں یونان سے ترکی واپس بھیجا گیا ہو۔

Belgien Brüssel Merkel und Ahmet Davutoglu (L) Türkischer Ministerpräsident
ترک وزیراعظم جرمن چانسلر کے ہمراہتصویر: picture-alliance/abaca/D. Aydemir

یورپی پارلیمان کے سربراہ مارٹن شولس کا مزید کہنا تھا، ’’ترکی کی طرف سے تین ارب یورو کی امداد کا مطالبات پر بحث جاری ہے۔‘‘

قبل ازیں ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یورپی یونین پر الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پہلے ہی طے شدہ معاہدے کے مطابق مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے تین ارب یورو فراہم نہیں کیے جا رہے۔ خواتین کی ٹریڈ یونینز سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو برسلز میں کسی معاہدے کے بغیر واپس نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘

رجب طیب ایردوآن نے یورپی یونین کی اس پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ خود تو مہاجرین کو اپنے ملکوں میں داخل ہونے سے روک رہیں ہیں لیکن ترکی سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینی چاہیے۔

ترک صدر کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کو ہم نہیں بھیج رہے۔ یہ خود سمندری راستوں سے یونان جا رہے ہیں، اور ان میں سے بہت سے ہلاک بھی ہو رہے ہیں۔ ہم تو ایک لاکھ مہاجرین کو ڈوبنے سے بچا چکے ہیں۔‘‘

دوسری جانب ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے ایک مرتبہ پھر یورپی سرحدیں سر بہ مہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی رجسٹریشن اور بغیر اجازے نامے کے یورپی حدود میں قدم رکھنے کی اجازت نہ دی جائے۔

برسلز میں ہونے والی یورپی یونین کی کانفرنس کے موقع پر ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یونان اور ترکی سے لوگوں کو یونین میں ’ری سیٹل‘ کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا گیا تو یہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح مزید مہاجرین یورپ کا رخ کریں گے اور یہ کہ ہنگری ایسے کسی بھی منصوبے کا حصہ نہیں بنے گا۔