1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین سے ممکنہ اخراج کے خلاف برطانیہ کو تنبیہ

مقبول ملک19 ستمبر 2013

یورپی یونین کے صدر رومپوئے نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطانیہ نے مستقبل میں یورپی یونین سے اخراج کا فیصلہ کیا تو نہ صرف عالمی سطح پر لندن کی حیثیت متاثر ہو گی بلکہ برطانیہ بہت پرکشش تجارتی معاہدوں سے بھی محروم ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/19kNa
تصویر: dapd

یورپی یونین کی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے نے بدھ کی رات لندن کی ریجنٹ یونیورسٹی میں یورپ کے عالمی کردار سے متعلق اپنے خطاب میں کہا کہ برطانیہ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اگر لندن نے 28 رکنی یورپی یونین کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو سب سے زیادہ نقصان بھی خود برطانیہ ہی کو ہو گا۔

برطانیہ نے ابھی تک یورپی یونین سے اپنے ممکنہ اخراج کے بارے میں کوئی واضح یا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ برطانیہ یورپی یونین کے اس وقت 28 رکن ملکوں میں سے ایک ہے تاہم وہ یورپی مالیاتی اتحاد میں شامل یا یورو کرنسی اپنانے والے ملکوں کے گروپ کا حصہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ یورپی یونین کے آزاد سرحدی معاہدے شینگن میں بھی شامل نہیں ہے۔

قدامت پسند برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس سال جنوری میں کہا تھا کہ اگر ان کی ٹوری پارٹی 2015ء میں ہونے والے اگلے عام الیکشن ایک بار پھر جیت گئی تو 2017ء کے اختتام سے پہلے مستقبل میں برطانیہ کے یورپی یونین میں شامل رہنے سے متعلق ایک عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔

اس تناظر میں ہیرمان فان رومپوئے نے اپنے خطاب میں کہا، ’’عالمی معیشت میں برطانیہ کی تجارتی پہنچ بہت زیادہ ہے۔ اسے اتنی زیادہ عسکری اور سفارتی اہمیت بھی حاصل ہے، جتنا دنیا کے بہت کم ملکوں کو میسر ہے۔ ایسے میں لندن اگر برسلز کے ساتھ مل کر کام کرے گا تو سب سے زیادہ فائدہ اسی کو ہو گا۔‘‘

EU Gipfel in Brüssel 01.03.2012
کیمرون کا ارادہ ہے کہ چار سال بعد برطانیہ کے یونین میں شامل رہنے سے متعلق عوامی ریفرنڈم کرایا جائےتصویر: Reuters

یورپی یونین کی کونسل کے صدر کے بقول برطانیہ اگر چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں اس کی آواز سنی جائے تو اس سلسلے میں یورپی یونین میں شامل رہنا لندن حکومت کی آواز میں کمی کا سبب نہیں بنے گا بلکہ تب برطانیہ کے لیے یورپی یونین کی حیثیت ایک میگافون کی سی ہو گی۔

ڈیوڈ کیمرون نے لندن کی یورپی یونین میں رکنیت کے تسلسل کے بارے میں قریب چار سال بعد ایک عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کا جو مشروط اعلان کیا تھا، اس پر نہ صرف یونین میں برطانیہ کے کئی ساتھی ملکوں نے کھل کر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا بلکہ اسی بارے میں امریکا اور جاپان تک نے بھی لندن کو خبردار کر دیا تھا۔

کیمرون کا اب تک کا ارادہ یہ ہے کہ 2017ء کے ممکنہ عوامی ریفرنڈم سے پہلے وہ برسلز کے ساتھ لندن کی یونین میں رکنیت سے متعلق ایک نیا معاہدہ طے کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر ساتھ ہی یونین کے دیے گئے کئی طرح کے اختیارات واپس برطانیہ کے حوالے کرنے کی کاوش بھی کی جائے گی۔

ہیرمان فان رومپوئے یورپی یونین کے وہ دوسرے انتہائی اعلیٰ عہدیدار ہیں، جنہوں نے اسی مہینے یورپی یونین میں برطانیہ کے مستقبل کے حوالے سے لندن حکومت کو خبردار کیا ہے۔ ان سے قبل یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئل باروسو نے بھی خبردار کیا تھا کہ برطانوی قدامت پسندوں کا رویہ بھی UKIP نامی یورپ مخالف برطانوی سیاسی جماعت کی طرح کا ہوتا جا رہا ہے اور اگر ٹوری رہنماؤں نے اپنی یہ سوچ تبدیل نہ کی تو 2014ء میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں انہیں اپنے لیے عوامی تائید میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔