1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پولیس انسانوں کے 65000 اسمگلروں کی تلاش میں

7 اپریل 2018

یورپی یونین کی پولیس ایجنسی ’یورو پول‘ دنیا بھر سے انسانوں کو یورپ اسمگل کرنے میں مبینہ طور پر ملوث پینسٹھ ہزار سے زائد افراد کی نشاندہی اور ان کی تلاش کی کوششوں میں ہے۔

https://p.dw.com/p/2veNZ
Symbolbild Menschenhandel
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-P.Strobel

یورو پول کے مطابق سن 2015 میں جب مہاجرین کا بحران عروج پر تھا اور لاکھوں انسان بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچنے تھے، اس وقت کے مقابلے میں اب مہاجرین کی تعداد میں تو کمی آئی ہے لیکن انسانوں کے اسمگلروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان: انسانوں کی اسمگلنگ سالانہ قریب ایک ارب ڈالر کا کاروبار

یورپی پولیس کے مطابق انہوں نے انسانوں کی یورپ اسمگلنگ میں ملوث ہزاروں افراد کی نشاندہی کر لی ہے اور ان کے تفتیشی اہلکاروں نے انتہائی تیزی سے پھیلتے ہوئے اس بین الاقوامی منظم جرم میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لیے کئی ممالک میں اپنی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔

یورو پول کے مہاجرین کی اسمگلنگ سے متعلق خصوصی سیل کے سربراہ روبرٹ کریپینکو نے ہیگ میں نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’گزشتہ برس کے اختتام تک ہمارے ڈیٹا بیس میں پینسٹھ ہزار اسمگلروں کا ریکارڈ جمع ہو چکا تھا۔‘‘

ستمبر سن 2015 میں یورو پول کے پاس تیس ہزار انسانوں کے مشتبہ اسمگلروں کا ریکارڈ تھا جو کہ سن 2016 کے اختتام تک بڑھ کر پچپن ہزار تک پہنچ گیا تھا۔ سن 2017 کے دوران مزید دس ہزار مشتبہ اسمگلروں کی نشاندہی ہوئی تھی اور ان کے نام بھی اس ریکارڈ میں شامل کر لیے گئے تھے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مشتبہ افراد میں سے 63 فیصد یورپی ممالک کے شہری ہیں اور ان میں سے بھی پینتالیس فیصد مشتبہ اسمگلروں کا تعلق بلقان کی ریاستوں سے ہے۔

اس کے علاوہ چودہ فیصد مشرق وسطیٰ، تیرہ فیصد افریقہ، نو فیصد مشرقی ایشیا جب کہ ایک فیصد مشتبہ اسمگلروں کا تعلق امریکا سے ہے۔

یورو پول کے اس خصوصی پراجیکٹ کے سربراہ نے اے ایف پی کو یہ بھی بتایا کہ یورپ پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہونے کے باوجود دنیا کے مختلف خطوں میں جاری انسانوں کی اسمگلنگ کا کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس غیر قانونی کاروبار کے ذریعے اربوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔

ش ح/ع س (اے ایف پی)

پاکستان سے ترک وطن: مسائل اندرون ملک، حل کی تلاش باہر