1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

250309 D&E

مقبول ملک26 مارچ 2009

دنیا بھر میں ایٹمی توانائی کا پر امن استعمال سب سے زیادہ یورپ میں کیا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کا آج تک کا سب سے بڑا واحد ایٹمی حادثہ یوکرائین کے شہر چیرنوبل میں پیش آیا تھا اور یوکرائین بھی یورپ ہی کا ایک ملک ہے۔

https://p.dw.com/p/HKIT
یورپ میں ایک مرتبہ پھر ایٹمی توانائی کے حق میں فیصلے کئے جا رہے ہیں

اپریل 1986 میں چیرنوبل میں پیش آنے والے تباہ کن ایٹمی حادثے کے تقریبا ربع صدی بعد آج بھی یورپ میں پوچھا جانے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ یورپی ملک توانائی کے حصول کے لئے ایٹمی بجلی گھروں پر فی زمانہ کتنا انحصار کرتے ہیں۔

1986 میں سابق سوویت یونین کی جمہوریہ یوکرائین کے دارالحکومت کی ایف کے نواح میں چیرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر میں پیش آنے والے تباہ کن حادثے کے تابکاری اثرات وہاں آج بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ 80 کی دہائی کے وسط میں چیرنوبل کے ایٹمی حادثے کے ساتھ ہی پورے یورپ میں اس بارے میں بحث شروع ہو گئی تھی کہ یورپی ملکوں کی ایٹمی تنصیبات کس حد تک محفوظ ہیں؟ اس حوالے سے کئی مغربی یورپی ملکوں میں سیاسی سطح پر سب سے زیادہ بلند آواز ماحول پسندوں کی جماعتوں کی تھی جومتعدد ریاستوں میں ایٹمی توانائی کے استعمال کے بتدریج خاتمے کے پارلیمانی فیصلوں کی وجہ بھی بنی تھیں۔

یہ بھی اسی عرصے کے دوران ہی ممکن ہوا تھا کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں، جب برلن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD اور ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت قائم تھی، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جرمنی میں نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر نہیں کئے جائیں گے اور جو موجود ہیں وہ بھی بتدریج بند کردیئے جائیں گے۔

Iran Zubehör für das Atomkraftwerk in Boushehr Busher
ایٹمی فضلے کو ٹھکانے لگانا اب بھی ایک بڑا اہم مسئلہ ہےتصویر: AP


یورپ میں ایٹمی توانائی کے حق میں نئے فیصلے

یورپ میں گذشتہ کچھ عرصے سے ایسے ملک اپنے ہاں نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنے کے فیصلے کر رہے ہیں جن کے 80 اور 90 کی دہائیوں میں جوہری توانائی کے خلاف کئے جانے والے فیصلے دوسرے ملکوں کے لئے مثالی اقدامات بن گئے تھے۔ اسی وجہ سے ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے حامی اب یہ دعوے بھی کرنے لگے ہیں کہ وہ تو شروع سے ہی حق بجانب تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ویانا میں ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے IAEA کے اعدادوشمار کے مطابق آئندہ برسوں میں دنیا بھر میں ایک سو تک نئے ایٹمی بجلی گھر کام کرنا شروع کردیں گے۔ ان میں سے 40 نئے ایٹمی بجلی گھروں کے قیام کی منظوری کے لئے باقاعدہ درخواستیں IAEA کوموصول بھی ہو چکی ہیں۔

اس سال فروری کے اوائل میں ایٹمی توانائی کی دوبارہ محسوس کی جانے والی ضرورت کے حوالے سے سب سے حیران کن فیصلہ سٹاک ہولم میں سننے میں آیا تھا جب سویڈش حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے ہاں نہ صرف ایٹمی توانائی کے استعمال کو ترک کردینے کا تین عشرے قبل کیا جانے والا فیصلہ منسوخ کردے گی بلکہ نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی اجازت بھی دینے لگے گی۔ یہ اعلان خاص طور پر یورپی ماحول پسندوں اور ایٹمی توانائی کے مخالفین کے لئے اس وجہ سے بڑی تشویش کا باعث بنا کہ سویڈن ہی دراصل وہ پہلا ملک تھا جس نے رضاکارانہ طور پر ایٹمی توانائی کو استعمال نہ کرنے کاجرات مندانہ فیصلہ کیا تھا۔

IAEA-Fahne vor Büro in Wien
ویانا میں ایٹمی توانائی ایجنسی کے دفتر کے باہر لہراتا ہوا پرچمتصویر: AP

توانائی کے حصول کے لئے یورپی ملکوں میں ایٹمی بجلی گھروں کے استعمال کو دی جانے والی اسی موجودہ ترجیح کا ایک اور ثبوت ابھی حال ہی میں اٹلی میں کیا جانے والا ایک حکومتی فیصلہ بھی تھا۔ اطالوی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی 22 برس بعد اپنا جوہری توانائی کو زیادہ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ بدل دے گی اور نئے ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرے گی۔

اس بارے میں اطالوی وزیر اقتصادیات کلاؤڈیو سکایولا کے توانائی سے متعلقہ امور کے مشیرسیرجیو گاریبا کہتے ہیں:’’اطالوی حکومت کا خیال ہے کہ یورپ کے لئے ایٹمی توانائی کی صورت میں ایک ایسا امکان موجود ہے جس کے حق میں تین دلائل دیئے جاسکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ایٹمی بجلی گھروں سے بڑی مقدار میں ماحول دوست توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی توانائی جس کی پیداوار کے عمل میں سبز مکانی گیسوں کے اخراج سے بچا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ ایسی توانائی محفوظ بھی ہے اور اس پر اٹھنے والی کم تر پیداواری لاگت صحت مند کاروباری مقابلہ بازی کو بھی متاثر نہیں کرتی۔ تیسرے یہ کہ اس طرح توانائی کے تیل اور گیس جیسے درآمدی ذرائع پر انحصار سے بھی بچا سکتا ہے۔‘‘

توانائی کی درآمدات کی شرح 85 فیصد

اٹلی کے لئے اب جوہری توانائی پر دوبارہ انحصار اس لئے اور بھی اہم ہو گیا ہے کہ دنیا کے صنعتی طور پر سات ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے والی اس یورپی ریاست کی توانائی کی جملہ ضروریات کا قریب 85 فیصد حصہ اس وقت صرف توانائی کی درآمدات کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔

اطالوی وزیر اقتصادیات کلاؤڈیو سکایولا کے توانائی سے متعلقہ امور کے مشیرسیرجیو گاریبا کے ان دعووں کے برعکس اٹلی میں ان حکومتی ارادوں کی مخالفت بھی کی جارہی ہے۔ مثلا تحفظ ماحول کے لئے کوششیں کرنے والی ایک اہم اطالوی تنظیم لیگا آمبی اینتے کی تحقیقی امور سے متعلقہ کمیٹی کے سربراہ شٹیفانو چیا فانی کہتے ہیں: ’’اطالوی حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ دوبارہ ایٹمی توانائی کے استعمال کے اسی دور میں شامل ہوجائے جس کا اختتام 1987 میں ہو گیا تھا۔ لیکن ان تمام منصوبوں کی بنیاد وہ فرضی حقائق ہیں جو سرے سے ہی غلط ہیں۔‘‘

Tschernobyl
1986 میں چیرنوبل میں تباہ کن ایٹمی حادثے کے بعد کا منظرتصویر: AP

یورپ میں اٹلی جیسا ملک بھی توانائی کے ماحول دوست ذرائع کے استعمال کے حوالے سے ایٹمی توانائی پر بہت طویل عرصے تک انحصار نہیں کر سکتا۔ اس موقف کے حق میں اپنے دلائل دیتے ہوئے اطالوی غیر حکومتی تنظیم لیگا آمبی اینتے کی تحقیقی امور سے متعلقہ کمیٹی کے سربراہ شٹیفانو چیا فانی کہتے ہیں: ’’توانائی کے شعبے میں ایٹمی ٹیکنالوجی بھی اٹلی کو درآمدات پر انحصار سے آزاد نہیں کروا سکتی۔ اس لئے کہ اٹلی میں بھی یورینیم کے کوئی ذخائر نہیں پائے جاتے اور حکومت کو یورینیم بھی درآمد کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں یورینیم کے ذخائر بھی لامحدود نہیں ہیں۔ جس رفتار سے مختلف ملک انہیں استعمال کررہے ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ آئندہ چھ اور آٹھ عشروں کے درمیان ختم ہوجائیں گے۔‘‘

جہاں تک یورپ میں دیگر بڑے ملکوں کا سوال ہے تو فرانس اور برطانیہ بھی اسی ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کرتے ہوئے آئندہ مل کر نئے ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کرنا چاہتے ہیں جنہیں وہ مشترکہ طور پر استعمال میں لائیں گے۔ ابھی تک بیلجئیم وہ واحد یورپی ملک ہے جس نے ماضی میں اپنے ہاں ایٹمی توانائی کے استعمال کو ترک کردینے کا فیصلہ کیا تھا اور ابھی تک اپنے اس فیصلے پر قائم ہے۔

ایٹمی توانائی کے بارے میں جرمن موقف

جرمن حکومت نے ملک میں ایٹمی توانائی کے استعمال کو بتدریج ختم کردینے کا فیصلہ سات سال قبل کیا تھا۔ تب جرمنی میں کل 19 ایٹمی ری ایکٹر کام کررہے تھے جن کے استعمال کی مجموعی مدت محدود کرکے 30 برس کر دی گئی تھی۔ اس مدت کے بعد ان تمام ایٹمی ری ایکٹروں کی بندش کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ لیکن کئی دیگر یورپی ملکوں کی طرح اب ایک بار پھر جرمنی میں بھی ایٹمی توانائی کے استعمال کے حق میں اٹھنے والی آوازیں بہت بلند ہو چکی ہیں۔

Protest gegen Kernenergie
دنیا بھر میں ایٹمی توانائی کے استعمال کے خلاف رائے پائی جاتی ہےتصویر: dpa

اسی موضوع پر ابھی حال ہی میں وفاقی جرمن پارلیمان میں بہت طویل بحث بھی دیکھنے میں آئی۔ قدامت پسند اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے اکثر رہنماؤں کا خیال ہے کہ جوہری توانائی کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دینے سے جرمنی مستقبل میں توانائی کے شعبے میں کافی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت CDU کے سیکریٹری جنرل رونالڈ پوفالا کہتے ہیں: ’’تحفظ ماحول کے پہلے سے طے شدہ اور بہت اعلیٰ مقاصد کا حصول صرف ایٹمی توانائی کے استعمال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ جرمنی میں کوئی بھی شہری نئے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کا حامی نہیں ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں اب تک کام کرنے والے اور بہت محفوظ ایٹمی بجلی گھروں کے استعمال کی مجموعی مدت میں توسیع کردی جائے تاکہ وہ اب تک طے شدہ عرصے کے بعد بھی توانائی مہیا کرتے رہیں۔‘‘

ایٹمی فاضل مادوں کا مسئلہ

جرمنی میں چانسلر میرکل کی پارٹی کے موقف کے جواب میں برلن کی مخلوط حکومت میں وزیر ماحولیات کے فرائض انجام دینے والے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کے ایک رہنما سگمار گابرئیل کہتے ہیں کہ توانائی کے شعبے میں پہلے سے کئے گئے فیصلوں میں تبدیلی یا ان کی منسوخی ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔

’’قدامت پسند یونین جماعتیں اور ترقی پسند سیاستدان ایٹمی توانائی کے زیادہ استعمال کے حق میں ہیں مگر وہ اس بارے میں خاموش ہیں کہ اس طرح پیدا ہونے والے نئے ایٹمی فاضل مادوں کو کہاں ذخیرہ کیا جائے گا۔ وہ پرانے ایٹمی بجلی گھر جو مستقل مسائل کا باعث بنتے رہتے ہیں، اگر ان کو اور بھی لمبے عرصے تک استعمال کیا گیا تو جرمنی میں عام شہریوں کو سلامتی کے شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

جرمنی میں توانائی کے شعبے کی صورت حال پر نظر رکھنے والے وفاقی ادارے فیڈرل انرجی ایجنسی کے سربراہ شٹیفان کوہلرکے مطابق ایٹمی توانائی کے شعبے میں دنیا بھر میں ایک بڑے مسئلے کو شروع سے زیادہ تر نظر اندازہی کیا گیا ہے۔

شٹیفان کوہلر کا کہنا ہے: ’’ انتہائی تابکار فاضل مادوں کو حتمی اور محفوظ طور پر ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی ایک بھی فعال عالمی ذخیرہ گاہ موجود نہیں ہے۔ اسی لیے یہ بہت ہی خطرناک حکمت عملی ہے کہ مختلف ملک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کریں جس کے بارے میں یہ طے ہی نہ کیا گیا ہو کہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرناک فاضل مادوں کوکس طرح اور کہاں ٹھکانے لگایا جائے گا۔‘‘