یورپ میں پھیلتا ہوا خطرناک مرض، شاگَس
20 اپریل 2017لاطینی امریکی ملک بولیویا کے ایک کیڑے Vinchuca کے کاٹنے سے پھیلنے والا یہ مرض وسطی و جنوبی امریکا اور میکسیکو کے بعد اب یورپ میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا ہے۔ رات کے سونے کے دوران ’کِسنگ بَگ‘ کہلانے والے ونچوکا کے کاٹنے پر شدید کھجلی ہوتی ہے۔ یہ کیڑا ہمیشہ چہرے پر ہی کاٹتا ہے۔ شدید خارش سے باہر کی جلد پر موجود پیراسائٹ انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
اس مرض کی سب سے پہلے شناخت ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ڈاکٹر ہائیمے الچح نے کی تھی۔ وہ اس ہسپتال کے شعبہ پیراسائٹولوجی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بچوں کے جس وارڈ کے ٹیسٹ کیے تھے، اُن میں سے نوے کو چاگاس بیماری لاحق ہو چکی تھی۔ اس مہلک بیماری کی ایک وجہ یہ ہے کہ انفیکشن کے پھیلاؤ کے وقت بدن میں بظاہر کوئی ایسی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی جس کے لیے فوری طور معالج کے پاس جایا جائے۔
اس بیماری کے لاحق ہونے کے نتیجے میں دل کے عضلات کو کمزور کرنے والی کوئی بیماری جنم لیتی ہے یا پھر نظام ہضم شدید متاثر ہو جاتا ہے۔ طویل عرصے تک غیر محسوس انداز میں پھیلنے والے مرض کا علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایسا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کسی حاملہ عورت کے اندر یہ بیماری موجود ہو گی تو وہ نومولود کے جسم میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایسا شخص جس کے بدن میں چاگاس کا پیراسائیٹ ہو گا، اگر اُس کا عطیہ کردہ خون کسی کو لگا دیا جائے گا تو مرض کی منتقلی ممکن ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈیٹا کے مطابق شاگس بیماری کے زیادہ مریض ارجنٹائن میں پائے جاتے ہیں تاہم آبادی کے اعتبار سے بولیویا میں اس بیماری کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ہسپانوی ڈاکٹر ماریا یسوس پینازو کا کہنا ہے کہ بولیویا میں اس بیماری کے حوالے سے عام تاثر یہ ہے کہ یہ لاعلاج ہے۔ ڈاکٹر پینازو کی ایک ٹیم ابھی بھی بولیویا میں اس مرض کے خلاف اپنا تشخیصی کیمپ جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ بیماری اس وقت لاطینی امریکا کے اکیس ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق ساٹھ لاکھ افراد اس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے بتایا ہے کہ یورپ بھر میں بھی چاگاس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ بیماری سن 1990 کی دہائی میں اسپین کی جانب مہاجرت کرنے والے لاطینی امریکی افراد کے توسط سے یورپ پہنچی ہے۔ امریکا میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد نصف ملین خیال کی جاتی ہے۔