1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں دہشت گردی کے خلاف زیادہ مؤثر اقدامات کی کوششیں

امجد علی23 ستمبر 2008

منگل کو یورپی پارلیمان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر تبادلہء خیال کیا گیا۔ خاص توجہ کا مرکز ایسے عناصر کے خلاف اقدامات کے لئے نئے ضوابط کی تشکیل پر دی گئی، جو انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے دہشت گردی کی ترغیب دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/FNTq
تصویر: AP

2004ء اور 2005ء میں مَیڈرڈ اور لندن میں دہشت پسندانہ حملوں کے بعد سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی تھی کہ یورپی یونین کے رکن ممالک بھی القاعدہ سے روابط رکھنے والی مسلمان دہشت پسند تنظیموں کا ہدف ہیں۔ اِس خطرے سے نمٹنے کے لئے یورپی یونین نے سن 2005ء میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی یورپی حکمتِ عملی ترتیب دی تھی۔

اِس حکمتِ عملی کے چار بنیادی نکات تھے: انسانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل ہونے سے روکنا، دہشت پسندانہ اقدامات کے خلاف قانونی کارروائی کرنا، سرحدوں اور اہم راستوں کو دہشت پسندانہ اقدامات سے بچانا اور کسی بڑے دہشت پسندانہ حملے کی صورت میں متعلقہ ممالک کو مدد فراہم کرنا۔

Großbritannien London Terror Autobombe entdeckt
جولائی 2005 میں ہونے والے لندن بم دھماکےتصویر: AP

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں یورپی یونین کے رابطہ کار Gilles de Kerchoveکے خیال میں اشتراکِ عمل اور معلومات کا تبادلہ اِس جنگ میں کامیابی کے لئے فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے۔ نئے دہشت گردوں کی تلاش کے سلسلے میں انٹرنیٹ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’ایسی وَیب سائیٹس کی تعداد پانچ ہزار ہے، جن میں تشدد اور دہشت پسندانہ کارروائیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم اِن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اِس طرح کی سرگرمیوں کا اولین نشانہ خود مسلمان بنتے ہیں۔ یہ نظریات کی جنگ ہے۔ ہمیں دہشت پسندانہ اقدامات کے لئے مذہبِ اسلام کے ناجائز استعمال کو روکنا ہے۔‘‘

آج کل یورپی وارنٹ گرفتاری کے ذریعے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں دہشت گردوں کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اِس کی مدد سے اب تک دو ہزار سے زیادہ مشتبہ افراد کو پکڑا جا چکا ہے۔ تاہم یورپی یونین کی وہ فہرست بہت متنازعہ ہے، جس کا فیصلہ مئی سن 2002ء میں ہوا تھا اور جس میں مشتبہ دہشت پسند افراد اور تنظیموں کے نام درج کئے جاتے ہیں۔

Bombenanschläge in Madrid Miniquiz März 2004
میڈرڈ میں ٹرین بم دھماکےتصویر: AP

اِس فہرست میں شامل افراد کی سفری آزادی محدود بنا دی جاتی ہے، اُن کے اکاؤنٹ منجمد کر دئے جاتے ہیں اور اُن کی جائیداد ضبط کر لی جاتی ہے۔ کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کے رکن ڈِک مارٹی اِس ببات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں کہ جس کسی کا نام ایک بار اِس فہرست میں لکھا جاتا ہے، پھر اُس کے پاس اپنے خلاف مزاحمت کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

’’اِس بلیک لِسٹ میں اپنے نام کے اندراج کے خلاف اپیل کرنے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ کہیں کوئی ایسی تفصیلات موجود نہیں ہوتیں، جن سے پتہ چل سکے کہ متعلقہ شخص پر کیا الزامات عاید کئے گئے ہیں۔ اِس فہرست سے نام کے اخراج کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘

اِس فہرست کے خلاف مختلف بین الاقوامی عدالتوں میں درخواستیں دی جا چکی ہیں۔ تین کیسوں میں یورپی عدالتِ انصاف اِس فہرست سے تنظیموں اور افراد کے ناموں کے اخراج کی ہدایات جاری کر چکی ہے۔

یورپ میں دہشت گردوں کے خلاف مربوط کارروائیوں کے سلسلے میں یورپی محکمہء پولیس یوروپول اور محکمہء انصاف یوروجَسٹ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یورپی پارلیمان میں اِس موضوع پر بھی تبادلہء خیال کیا جا رہا ہے کہ اِن اداروں کی سرگرمیوں کو کیسے ا ور زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

آنکے ہاگے ڈورن کا جائزہ