یورپ: مہاجرین کا بحران سنگین تر ہو گیا
20 ستمبر 2015جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا کے ریڈ کراس کے سربراہ گیری فوئیٹک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اُنیس ستمبر ہفتے کے روز بارہ سے لے کر تیرہ ہزار تک مہاجرین آسٹریا میں داخل ہوئے۔ اس تعداد کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو پائی تاہم اس سے پہلے آسٹریا کی پولیس نے اس امر کی تصدیق کی تھی کہ تقریباً دَس ہزار مہاجرین کی آمد متوقع ہے۔
یورپ پہنچنے والے اِن مہاجرین کا تعلق مشرقِ وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ کے بحران زدہ اور جنگی حالات کے شکار ملکوں سے بتایا گیا ہے۔ اسی دوران ہنگری بدستور مہاجرین کے ساتھ پُر تشدد جھڑپوں اور عجلت میں سربیا کے ساتھ مشترکہ سرحد پر تعمیر کی جانے والی خار دار باڑ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ تاہم اس تمام تر تنقید کے باوجود ہنگری نے کہا ہے کہ وہ ہر قیمت پر مہاجرین کے سیلاب کے خلاف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے گا۔
جمعے کے روز ہنگری کے حکام نے ہزاروں مہاجرین کو بسوں میں بھر کر آسٹریا کی جانب منتقل کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ جتنی جلد ممکن ہو، اپنی سرزمین سے اُنہیں نکال باہر کیا جا سکے۔ آسٹریا کی پولیس نے ہفتے کا دن شروع ہونے پر بتایا تھا کہ ہنگری نے بسوں کے ذریعے کم از کم چھ ہزار سات سو مہاجرین کو آسٹریا کی سرحد پر پہنچا دیا ہے۔ بعد ازاں دن بھر مزید مہاجرین کی آسٹریا آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
دریں اثناء یورپ کی جانب غیر ملکیوں کے سیلاب کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ ہنگری کا راستہ بند ہونے پر مہاجرین نے متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے کروشیا کا رُخ کر لیا تھا اور وہاں کی زغرب حکومت کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز سے کوئی بیس ہزار سات سو افراد کروشیا میں داخل ہوئے۔
کروشیا نے ابتدا میں ان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا تاہم جب ان کی تعداد حد سے بڑھنے لگی تو کروشیا نے بھی انہیں بسوں اور ٹرینوں میں بھر بھر کر آگے ہنگری بھیجنا شروع کر دیا اور اب ہنگری یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے انہیں آگے آسٹریا روانہ کر رہا ہے۔
کچھ مہاجرین سلووینیا کے راستے مغعربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں ہیں اور سلووینیا کی وزارتِ داخلہ کے مطابق جمعے کے روز سے وہاں بھی کوئی ڈیڑھ ہزار افراد پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہے کہ کروشیا کے برعکس سلووینیا اور ہنگری یورپی یونین کے ’پاسپورٹ فری‘ شینگن زون میں شامل ہیں۔
دریں اثناء ہنگری کا کہنا ہے کہ اُس نے سربیا کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر خاردار باڑ لگانے کے بعد اب کروشیا کے ساتھ ملنے والی سرحد پر بھی اکتالیس کلومیٹر طویل خاردار باڑ مکمل کر لی ہے۔ کروشیا کے ساتھ ہنگری کی باقی ماندہ 330 کلومیٹر طویل سرحد دریائے ڈراوا کے ساتھ ساتھ ہو کر گزرتی ہے، جسے عبور کرنا بہت مشکل ہے۔
کروشیا اور سلووینیا کی سرحد پر مقامی اور غیر ملکی رضاکاروں کی جانب سے امدادی خیمے لگائے گئے تھے، جہاں مہاجرین میں خوراک، پانی اور کپڑے تقسیم کیے گئے۔ یہ امدادی سامان وصول کرنے والوں میں شام کا ایک سابقہ کسٹم افسر خدّام غیاث بھی شامل تھا، جو اپنی ستر سالہ والدہ کے ساتھ اس مہم جویانہ سفر پر نکلا ہوا ہے۔ امدادی خیموں کے بارے میں اُس نے اپنے تاثرات بتاتے ہوئے کہا:’’یہ ان کا بہت فیاضانہ عمل ہے۔ ان لوگوں کے لیے بھی یہ یقیناً ایک دھچکا ہو گا کہ ایک دم یہ ہزاروں لوگ کہاں سے آ گئے۔ یہ کوئی معمول کی صورتِ حال ہرگز نہیں ہے۔‘‘
جمعے کو جاری کردہ اعداد و شمار میں کہا گیا کہ اس سال اب تک پونے پانچ لاکھ افراد مختلف مشکلات سے گزر کر یورپ پہنچے جبکہ جون کے بعد سے تین مہینوں کے دوران یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی ڈہائی لاکھ درخواستیں دی گئیں۔ زیادہ تر مہاجرین کی منزل جرمنی ہے، جو سالِ رواں کے آخر تک ایک ملین مہاجرین کی توقع کر رہا ہے۔
اسی دوران زیادہ سے زیادہ یورپی رہنما یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مہاجرین کے مسئلے سے خاص طور پر ترکی میں نمٹا جانا چاہیے، جہاں سے ہزارہا شامیوں سمیت بہت سے دیگر غیر ملکی یورپ کی جانب اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ یورپی کمشنر یوہانیس ہان نے ہفتے کے روز کہا کہ یورپی یونین شامی مہاجرین کو ترکی ہی میں قیام پذیر رہنے کا قائل کرنے کے لیے ایک بلین یورو مختص کر رہی ہے۔
آسٹریا کے چانسلر ویرنر فے مان اور جرمنی کے ڈپٹی چانسلر زیگمار گابریئل نے مشترکہ طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ لبنان اور اُردن میں مقیم مہاجرین کے لیے اضافی طور پر پانچ ارب یورو کی امداد فراہم کی جائے۔ شام کے بحرانی حالات سے بچنے کے لیے جو چار ملین سے زیادہ شامی ملک چھوڑ چکے ہیں، اُن کی تقریباً نصف تعداد نے ہمسایہ ملک ترکی میں پناہ لے رکھی ہے، ایک ملین سے زیادہ لبنان میں ہیں جبکہ کم از کم چھ لاکھ نے اردن میں پناہ لی ہے۔