یورپ عالمی سطح پر تیزی سے اپنا اثرورسوخ کھو رہا ہے، ایشٹن
11 مارچ 2010ایشٹن کے مطابق بصورت دیگر تیزی سے ترقی کی طرف گامزن دیگر ریاستیں یورپ کو دبا کر رکھ دیں گی۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بدھ کے روز کیتھرین ایشٹن نے یورپی پارلیمان میں آئندہ پانچ سالوں کا اپنا پروگرام پیش کیا: ان کے بقول ’’اقتصادی استحکام ہی دراصل سیاسی اثر ورسوخ اور خود اعتمادی کی راہ ہموار کرتا ہے اور اسے ہر جگہ محسوس کیا جا سکتا ہے، ماحولیاتی پالیسی ہو ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کا معاملہ یا افریقہ اور وسطی ایشیا میں توانائی کی تجارت۔ اپنے مفادات کا تحفظ ہم متحد ہو کر ہی کر پائیں گے، وگرنہ ہمارے فیصلے دوسرے کیا کریں گے۔‘‘
ایشٹن یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کی حیثیت سے یورپ کے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ، نیٹو اور اقوام متحدہ کے ساتھ قریبی اشتراک عمل کو نہایت ضروری سمجھتی ہیں۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ یورپ کے پاس اپنی ایک وسیع خارجہ پالیسی موجود ہے جسے دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایشٹن نے گزشتہ دہائی کے دوران دنیا کی آبادی اور اقتصادیات میں یورپ کے حصے کے تیزی سے سُکڑنے کے عمل کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ اُن کے بقول یورپ کے برعکس چین، بھارت اور دیگر قومیں سالانہ دس فیصد تک ترقی کر رہی ہیں۔
برطانوی سیاست دان اور لیبر پارٹی کی لیڈر کیتھرین ایشٹن نے گزشتہ برس یکم دسمبر کو یورپی یونین کے خارجہ اور سلامتی امور کے نگراں کا نوساختہ اعلیٰ سطحی عہدہ سنبھالا تھا، تب سے انہیں مخالفتوں اور تنقید کا سامنا ہے۔ اُس سے قبل ایشٹن یورپی کمیشن کی تجارتی کمشنر تھیں۔ متعدد یورپی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ ایشٹن یورپی خارجہ سیاست سے نا بلد ہیں اور اس شعبے میں ان کے پاس کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ یورپی خارجہ دفتر کی زبان بھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے ۔ زیادہ تر سیاست دانوں کا مطالبہ ہے کہ جرمن سمیت یونین کی تینوں سرکاری زبانوں کو خارجہ امور میں استعمال کیا جائے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی یورپی یونین کے اس نئے اعلیٰ سطحی خارجہ امور کے دفتر میں جرمن زبان کے استعمال پر غیر معمولی زور دیا ہے۔
اس کے علاوہ یورپی یونین کے ممبر ممالک، یورپی کمیشن اور یورپی پارلیمان میں کئی ماہ سے چوٹی کے اس نئے دفتر کو کسی ایک ملک کے حوالے کرنے کے معاملے پر گرما گرم بحث کر رہےہیں ۔ یورپی پارلیمان کے ممبر اور کرسچن ڈیمو کریٹ لیڈرایلمر بروک کے بقول: ''اس امر کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ یورپی اتحاد اپنی تاریخ میں اُسی وقت کامیاب رہا ہے جب اس نے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا‘‘۔
کیتھرین ایشٹن کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ دو متضاد مفادات کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایک طرف وہ یورپی کمیشن دوسری جانب یورپی یونین میں شامل تمام رکن ممالک کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ یہ دونوں ساتھ لے کر چل پائیں گی؟
رپورٹ کشور مصطفیٰ
ادارت شادی خان سیف