1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ اُتنے مہاجرین کو قبو ل کرے جنہیں ضم کر سکے: پوپ فرانسس

صائمہ حیدر
2 نومبر 2016

کيتھولک مسيحيوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے یورپی حکومتوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اُتنے ہی پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں قبول کریں جِتنوں کا ان کے معاشروں میں انضمام ممکن ہو۔

https://p.dw.com/p/2S1Ax
Polen Weltjugendtag 2016 in Krakau Papst Franziskus
پوپ فرانسس کے مطابق یورپی ممالک کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اُنہیں مہاجرین کو اپنے معاشروں میں ضم بھی کرنا ہےتصویر: Reuters/S. Rellandini
Polen Weltjugendtag 2016 in Krakau Papst Franziskus
پوپ فرانسس کے مطابق یورپی ممالک کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اُنہیں مہاجرین کو اپنے معاشروں میں ضم بھی کرنا ہےتصویر: Reuters/S. Rellandini

پوپ فرانسس نے منگل يکم نومبر کو سویڈن کے دو روزہ دورے کے بعد شہر مالمو سے روم واپس جاتے ہوئے کہا،’’ میرا یقین ہے کہ کوئی شخص بھی کسی مہاجر کے معاملے میں اپنا دل سخت نہیں کر سکتا۔ پناہ گزینوں پر اپنے دل اور گھروں کے دروازے بند کرنا غیر انسانی ہے۔‘‘

 پوپ فرانسس نے مزید کہا، ’’بالآخر ایک نہ ایک دن تو ایسے فیصلوں کی قیمت چکانی ہوتی ہے چاہے کوئی اس کی قیمت سیاسی طور پر چکائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم پناہ گزینوں کو لینے کے معاملے میں لا پرواہی برتیں اور اتنی زیادہ تعداد میں انہیں یورپ  آنے کی اجازت دے دیں کہ وہ معاشرے ميں ضم نہ ہو سکيں۔ تو اِس لاپرواہی کی قیمت بھی چکانی ہو گی۔‘‘

پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ یورپی حکومتوں کو مہاجرین کو پناہ دینے کے بارے میں بہت کھلے دِل سے کام لینا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ انہیں ذہن میں یہ بھی رکھنا چاہیے کہ اِن تارکینِ وطن کو صرف رہائش ہی فراہم نہیں کرنی بلکہ اپنے معاشرے میں رہنے کے طور طریقے سکھانے اور وہاں کام کرنے کے قابل بھی بنانا ہے۔

Schweden - Papst Franziskus, Martin Junge, Bischof Munib Younan, Cardinal Kurt Koch bei Messe
پاپائے روم دو روز قبل پروٹیسٹنٹ تحریک کے ریفارمیشن ڈے کی خصوصی تقریبات میں شرکت کے لیے سویڈن پہنچے تھےتصویر: picture-alliance/AP Images/L'Osservatore Romano

اصلاحات پسند پاپائے روم دو روز قبل پروٹیسٹنٹ تحریک کے ریفارمیشن ڈے کی خصوصی تقریبات میں شرکت کے لیے جنوبی سویڈن کے شہر مالمو پہنچے تھے۔

خیال رہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں ایک ملین سے زائد پناہ گزینوں نے یورپی ممالک کا رخ کیا تھا۔ ان تارکینِ وطن افراد میں زیادہ تعداد شامی باشندوں کی ہے جنہیں شام میں جاری خانہ جنگی کے سبب اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں جرمنی، ہنگری، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں مہاجرین مخالف جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔