یمن میں کیا ہو رہا ہے، کیا امن مذاکرات کامیاب ہوں گے؟
25 مارچ 2016اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس مئی میں شروع ہونے والی جنگ سے پہلے ہی انسانی بحران نے جنم لینا شروع کر دیا تھا لیکن اب وہاں تمام متاثرہ افراد کو امداد کی فراہمی بین الاقوامی امدادی اداروں کے بس کی بات بھی نہیں رہی۔
اقوام متحدہ نے بدھ کے روز اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن تنازعے کے فریقین دس اپریل کی رات سے عارضی فائربندی پر متفق ہو گئے ہیں اور اس کے ایک ہفتے بعد کویت میں فریقین کے مابین امن مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔
یمن میں کیا ہو رہا ہے؟
سن دو ہزار گیارہ میں صدر علی عبداللہ صالح کو احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے تینتیس برس بعد بے دخل کر دیا گیا تھا۔ طویل عرصے سے جاری قومی مذاکرات جنوری دو ہزار چودہ میں ناکامی سے دوچار ہو گئے۔ یمن کے شمال میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے تھے۔ دو ہزار چودہ میں ان باغیوں نے ملک کےجنوب کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی اور ملک کا طاقت ور گروپ بن کر ابھرے تھے۔ جنوری دو ہزار پندرہ میں انہوں نے دارالحکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور حکومت کی طرف سے تجویز کردہ نئے آئین کے مسودے کو بھی مسترد کر دیا۔
حوثی باغیوں نے دارالحکومت پہنچتے ہی اپنے سابق دشمن علی عبداللہ صالح سے دوستی کا ہاتھ ملا لیا اور دارالحکومت سمیت یمن کے مرکزی شہروں پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا۔ مارچ دو ہزار پندرہ میں صدر عبد ربه منصور ہادی سعودی عرب مفرور ہو گئے اور اسی مہینے سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ یمن میں فضائی کارروائیاں شروع کر دیں تاکہ حوثی باغی اور صالح کی وفادار فورسز کو پورے یمن پر قبضہ کرنے سے روکا جا سکے۔
اب یمن کے جنوب میں افراتفری مزید پھیل گئی ہے۔ حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے والی فورسز، جنہیں بین الاقوامی حمایت بھی حاصل ہے، یمن کے جنوبی شہر عدن تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ حوثی اور سعودی حملوں کے نتیجے میں عام شہری ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔ جنوب میں دوبارہ یمن سے آزادی حاصل کرنے کی تحریک سر اٹھا رہی ہے۔ جنوب کے علیحدگی پسند جنوبی سوشلسٹ ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر صالح نے ہی انیس سو نوے میں جنوبی یمن کو شمالی یمن سے ملایا تھا۔
یمن کا اتحاد شروع ہی سے مشکل کا شکار رہا ہے۔ انیس سو چورانوے میں یمن میں خونریز خانہ جنگی کا آغاز ہوا اور شمالی یمن کی فورسز کی جیت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے لوگ ابھی تک شمالی یمن والوں کو قابض سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب یمن القاعدہ اور داعش کے عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی متاثر ہوا ہے اور امریکا ابھی تک وہاں ان کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
جنگ کا نتیجہ ؟
اس لڑائی کے نتیجے میں یمن کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا ہے، سینکڑوں ہسپتال اور اسکول بند پڑے ہیں۔ اس ملک کو اپنی زیادہ تر غذائی اشیاء درآمد کرنا پڑتی ہیں اور اس کی ترسیل بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ چھبیس ملین کی آبادی میں سے کم از کم تیرہ ملین افراد کو غذائی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی اسّی فیصد آبادی کو کسی نہ کسی طرح کی امداد چاہیے۔
صرف گزشتہ ایک برس میں چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد تقریباﹰ تیس ہزار بنتی ہے۔ ہر دس میں سے ایک یمنی بے گھر ہو چکا ہے یا اپنے رشتہ داروں کے ہاں قیام پذیر ہے۔
نقصان پہنچنے کی وجہ سے ملک کے تقریباﹰ چھ سو ہسپتال بند پڑے ہیں جبکہ ادویات اور عملے میں کمی کی وجہ سے دیگر میں محدود کام ہو رہا ہے۔ مارچ دو ہزار پندرہ کے بعد سے تقریباﹰ اٹھارہ لاکھ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں کیونکہ گیارہ سو ستر اسکول بمباری یا جنگجوؤں کی قبضے کی وجہ سے ناقابل استعمال ہو چکے ہیں۔