1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیٹی زلزلہ، امدادی سرگرمیاں سست روی کا شکار

18 جنوری 2010

ہیٹی میں ہولناک زلزلے کے بعد سے امدادی کارروائیاں اگرچہ بدستور جاری ہیں تاہم اقوام متحدہ کے مطابق جس شدت سے یہ زلزلہ آیا اور اس سے جتنی تباہی ہوئی، اس کے مقابلے میں یہ سرگرمیاں ابھی خاصی ناکافی اور سست روی کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/LYMV
تصویر: AP

اس سست روی کی بنیادی وجہ سلامتی کی خراب صورتحال کے ساتھ ساتھ دارالحکومت پورٹ او پرانس کے اقتصادی ڈھانچے کو زلزلے سے پہنچنے والا شدید نقصان ہے۔ شہر کا مرکزی ہوائی اڈہ ابھی تک بڑے مال بردار طیاروں کے استعمال کے لئے نہیں کھولا جا سکا ہے۔ ان تمام عوامل کے باوجود امریکہ، اقوام متحدہ اور کئی ممالک کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ منگل کو آنے والے زلزلے کے بعد آج پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر پورٹ او پرانس کے متعدد علاقوں میں بڑے پیمانے پر اشیائے خوراک اور پینے کے پانی کی ترسیل شروع ہو پائی۔ کئی علاقوں میں سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں اور متعدد علاقوں تک رسائی فی الحال ممکن ہی نہیں ہو پائی۔

Schadenbewertungskarte Port-au-Prince vom DLR Flash-Galerie
زلزلے سے زیادہ متاثرہونے والے علاقےتصویر: DLR

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اتوار کے روز ایک خصوصی دورے پر ہیٹی پہنچے۔ انہوں نے شہر کے دورے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہیٹی میں آنے والا زلزلہ دنیا میں گزشتہ کئی دہائیوں میں آنے والی سب سے بڑی تباہی ہے اور اقوامِ متحدہ کے لئے دو ہزار چار کے سُونامی سے بھی کہیں بڑا چیلنج۔ بان کی مون نے اس جگہ کا دورہ بھی کیا، جہاں اقوام متحدہ کے امن مشن کے تیونس سے تعلق رکھنے والے سربراہ ہادی عنابی اس زلزلے سے ہلاک ہوئے تھے۔ بان کی مون نے ہیٹی کے صدر رینے پریول سے بھی ملاقات کی۔

دوسری جانب اتوار کے روز ڈنمارک سے تعلق رکھنے والی ایک امدادی ٹیم نے ایک منہدم عمارت کے ملبے سے ایک شخص کو زندہ سلامت نکال لیا۔ اتوار کے روز مجموعی طور پر پانچ افراد کو زندہ حالت میں شہر کے مختلف علاقوں سے زندہ نکال لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔

دریں اثناء علاقے میں موجود امدادی کارکنوں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ پورٹ او پرانس کے مغرب کی جانب زلزلے کے مرکز سے قریب تر کے علاقوں میں یہ تباہی اور بھی بھیانک ہے۔ ان علاقوں میں نوے فیصد سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ لیوگانے ہے، جہاں ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے رپورٹر کے مطابق تقریباً تمام مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ علاقہ مکمل سکوت کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ایک طرف امدادی کارکن ابھی اِس علاقے تک نہیں پہنچ پا رہے تو دوسری طرف اس زلزلے میں بچ جانے والے افراد امدادی کارکنان پر حملے کر کے انہیں لوٹ بھی رہے ہیں۔

Deutschland Hilfe für die Opfer Erdbeben in Haiti
کئی ممالک کی امداد کے باوجود اشیائے خوراک کو عوام تک پہنچانے میں دقت سامنے آ رہی ہےتصویر: AP

امریکہ کی جنوبی کمان کے لیفٹینیٹ کرنل Ken Keen کے مطابق زلزلے سے متاثرہ ایسے علاقے، جہاں پر لوگوں کی بڑی تعداد نہیں، وہیں تشدد کے واقعات بھی زیادہ رونما ہورہے ہیں۔

’’سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانا، وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے جیسا ہی کام ہے۔ ہمیں اپنے کام میں کامیابی کے لئے ایک پرامن اور پرتحفظ ماحول کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے یہاں اقوام متحدہ کا امن مشن گزشتہ کئی برسوں سے موجود ہے لیکن ہمارے سامنے ایک بڑے پیمانے کی تباہی ہے۔ ہمیں بیک وقت امدادی سرگرمیوں کو بھی تیز سے تیز تر کرنا ہے اور سلامتی کی صورتحال کو بھی بہتر بنانا ہے۔ گزشتہ روز یہاں امن کی صورتحال بہتر رہی اور امدادی کارکنوں کے کام میں بھی تیزی دیکھی گئی۔‘‘

امریکہ نے سلامتی صورتحال میں بہتری کے لئے ہیٹی میں دس ہزار فوجی تعینات کر دئے ہیں اور پورٹ او پرانس کا مرکزی ہوائی اڈہ بھی مکمل طور پر امریکی فوجیوں کے زیرانتظام کام کر رہا ہے تاکہ وہاں پہنچنے والی بین الاقوامی امداد کو بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تقسیم کیا جا سکے۔ لیکن دوسری جانب ہیٹی کے وزیردفاع Patrice Elie نے امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر تنقید بھی کی ہے۔ ان کے مطابق ہیٹی کوکسی جنگ کا سامنا نہیں لہٰذا انہیں فوجیوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز کی نہیں، اس فیصلے کا حق صرف ہیٹی کے عوام کو حاصل ہے اور اگر یہ کسی دوسرے ملک میں طے کیا جاتا ہے تو یہ بالکل ایسا ہو گا جیسے ہیٹی پر قبضہ کیا جا رہا ہو۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : امجد علی