1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہپناٹائز کر دینے والا ’سلو ٹی وی‘

امجد علی 27 دسمبر 2013

ناروے کے نئے ٹیلی وژن چینل ’سلو ٹی وی‘ کے پروگرام ڈرامائی اور سنسنی خیز نہ ہونے کے باوجود ناظرین میں زبردست مقبولیت اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ان پروگراموں کو دیکھتے ہوئے وہ آنکھ جھپکنا تک بھول جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AhdO
تصویر: picture-alliance/dpa

عام طور پر جب لوگ اپنا ٹیلی وژن سَیٹ آن کرتے ہیں تو وہ ڈرامائی اور سنسنی خیز مناظر دیکھنا چاہتے ہیں اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلز ان کی یہی مانگ پوری کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ Slow tv میں یہ سب کچھ نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی اُسے بے پناہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والے ایک سروے کے مطابق اس چینل کے ناظرین کی تعداد ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہے۔

اس چینل کے پروگرام ناروے کا سرکاری ٹیلی وژن سینٹر ’ NRK ‘ نشر کر رہا ہے۔ اس دوران پرائم ٹائم میں گھنٹوں تک قدرتی نظاروں کے علاوہ کیمپنگ یا پکنک کے مناظر یا پھر لوگوں کو پانی میں ڈوری ڈالے کانٹے میں مچھلیوں کے پھنس جانے کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ’این آر کے‘ کے پروگرام ڈائریکٹر Rune Moeklebust نے کہا کہ ’دراصل یہ صحیح معنوں میں ریئلٹی ٹی وی ہے، اصل ٹی وی ہے، جس میں پروگرام کسی بھی قسم کی ایڈیٹنگ کے بغیر اصل دورانیے کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں‘۔

اس طرح کے ٹیلی وژن پروگراموں کا خاکہ بنیادی طور پر 2009ء میں سامنے آیا تھا، جب ناروے کے دو شہروں بیرگن اور اوسلو کے درمیان ریل رابطے کی ایک سو ویں سالگرہ منائی گئی تھی۔ تب پروگرام پروڈیوسرز نے خوبصورت قدرتی مناظر کے بیچوں بیچ سے گزرتی اس ریل گاڑی کے سات گھنٹوں اور سولہ منٹوں پر مشتمل پورے سفر کو اپنے کیمرے میں قید کر لیا تھا۔ اس دوران جب جب راستے میں طویل اور تاریک سرنگیں آتی تھیں، وہاں آرکائیوز سے لیے گئے پرانے دلچسپ مناظر دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

Norwegen Slow TV Fjord
پرائم ٹائم میں گھنٹوں تک قدرتی نظاروں کے علاوہ کیمپنگ یا پکنک کے مناظر یا پھر لوگوں کو پانی میں ڈوری ڈالے کانٹے میں مچھلیوں کے پھنس جانے کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہےتصویر: picture alliance/Samfoto/NTB/Scanpix

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ ایک انوکھا تصور تھا، جسے عملی شکل دینا بھی آسان تھا اور یہی وجہ تھی کہ سرکاری نشریاتی ادارے نے اسے فوری طور پر اپنا لیا۔ ریل کے اس سفر کو تقریباً 1.2 ملین ناظرین نے دیکھا، جو ناروے کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتے ہیں۔

اس کے بعد اگلا پروگرام ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ پانی میں سفر کا تھا، جسے اور بھی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور اُسے مرحلہ وار 3.2 ملین ٹی وی ناظرین نے دیکھا۔ مختلف بندرگاہوں پر سینکڑوں تماشائیوں نے اس ’ساحلی ایکسپریس‘ کا خیر مقدم کیا۔ دھیمے دھیمے انداز میں پانی پر کیا گیا یہ پُر سکون سفر کچھ لوگوں کے لیے ایک نشے کی طرح تھا، جیسے کہ بیاسی سالہ کنُوٹ گریمیلانڈ کے لیے، جس کا کہنا تھا کہ اُس کی آنکھیں گویا ٹی وی اسکرین کے ساتھ چپک کر رہ گئی تھیں:’’کچھ کہہ نہیں سکتا کہ میں کتنے گھنٹے سویا، شاید زیادہ نہیں۔ سوفے پر بیٹھے بیٹھے مجھےکچھ دیر کے لیے اُونگھ ضرور آ جاتی تھی لیکن جن پانچ دنوں میں یہ ساحلی سفر دکھایا جاتا رہا، مجال ہے، جو مَیں اپنے بستر میں سونے کے لیے گیا ہوں۔‘‘ کچھ اور لوگوں کو ایسا لگا، جیسے وہ خود بھی پانی پر ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہوں۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ جب ٹیلی وژن پر ریل گاڑی بیرگن سے سفر کرتی ہوئی بالآخر اوسلو کے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوئی تو وہ خود کو اِس سارے منظر میں اتنا زیادہ شامل محسوس کر رہا تھا کہ اُس نے اپنے ڈرائنگ روم میں سفری سامان کی تلاش شروع کر دی تھی۔

’سلو ٹی وی‘ پر ناروے کے ناظرین کو صرف سفری مناظر ہی ہپناٹائز نہیں کرتے بلکہ وہ پانی میں تیرتی مچھلیوں، سویٹر بُنتی خواتین اور کھلے آسمان تلے آگ تاپتے افراد کو بھی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ نوجوان ناظرین نئی اور غیر معمولی چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں جبکہ بڑی عمر کے لوگوں کو سفر کے مناظر زیادہ مسحور کرتے ہیں۔