1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

’ہُن تے میں پرافٹ اچ جاریا واں‘

31 مارچ 2017

ہزاروں پاکستانی تارکین وطن گھر سے تو یورپ جانے کے لیے نکلے تھے لیکن راستے بند ہونے کے باعث وہ ترکی میں رکنے پر مجبور ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے شکور رحیم نے ایسے ہی کچھ پاکستانی تارکین وطن سے گفتگو کی۔

https://p.dw.com/p/2aPNd
Deutschland Deutschkurs für Flüchtlinge in Bonn
تصویر: DW/M. Hallam

ترکی کے شہر استنبول سے رواں ماہ کے آغاز پر اغوا ہونے والے تین پاکستانی شہری دو روز قبل بازیابی کے بعد اسلام آباد واپسی کے منتظر ہیں۔ انقرہ میں موجود ایک اعلیٰ پاکستانی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ استنبول میں پاکستانی قونصل خانہ ان پاکستانیوں کی جلد اور بخیریت وطن واپسی کے لیے ترک حکام سے مسلسل رابطے میں ہے۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

غلام فرید، ذیشان جہانداد اور مدثر علی نامی یہ تینوں پاکستانی بھی اپنے دوسرے کئی ہم وطنوں کی طرح یورپ جانے کی تمنا لیے غیر قانونی طریقے سے ترکی پہنچے تھے۔ جہاں سے انسانی سمگلر انہیں یونان لے جانے کے خواب دکھاتے رہے اور اس دوران یہ تینوں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔

تاہم ایک لحاظ سے یہ لوگ خوش قسمت بھی رہے کہ تاوان کی ادائیگی کے بغیر ترک پولیس کی بروقت مداخلت کے نتیجے میں انہیں بحفاظت رہائی ملی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ترکی میں پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن اغوا کاروں کےہتھے چڑھے ہوں۔ اس سے قبل بھی ترک پولیس نے جنوری کے مہینے میں چھ پاکستانیوں کو بازیاب کرانے کے بعد پاکستان واپس بھجوا دیا تھا۔

Türkei Flüchtlinge aus Syrien
اندازوں کے مطابق صرف استنبول میں آٹھ تا دس ہزار پاکستانی تارکین وطن موجود ہیںتصویر: Senada Sokollu

ایک سال قبل مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان جومعاہدہ کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی کے راستے یونان پہنچنے کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے آئے غیرقانونی تارکین وطن ترکی میں قیام پر مجبور ہیں۔ اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب استنبول کے مختلف حصوں میں گھومتے ہوئے کسی نہ کسی ایسے پاکستانی سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے جو ترکی آیا تو یورپ جانے کے لیے تھا، لیکن اب اسے یہیں قیام کرنا پڑ رہا ہے۔ اس طرح کے غیر قانونی تارکین وطن کی درست تعداد کا تو شاید کسی کو بھی معلوم نہ ہو۔تاہم پاکستان ایمبیسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صرف استنبول میں ایسے پاکستانیوں کی تعداد اندازوں کے مطاابق آٹھ سے دس ہزار کے درمیان ہے۔

ان افراد کی اکثریت یہاں گزر بسر کے لیے چھوٹے موٹے مختلف کام کر رہی ہے۔ ان کاموں میں ریستورانوں میں برتن دھونا، تعمیراتی کاموں میں مزدوری کے علاوہ سبزی اور فروٹ کی منڈی میں سامان ڈھونا شامل ہے۔ اسی طرح کے ایک نوجوان پاکستانی سے میری ملاقات استنبول شہر کے مختلف حصوں سے گزر کر اتاترک ایئرپورٹ جانے والی میٹرو ریل میں ہوئی۔ غیر قانونی تارکین وطن عام طور پر کسی سے بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں اور اگر کریں بھی تو بہت کھل کر بات نہیں کرتے۔

تاہم میرا صحافیانہ تجسس مجھے ایسے افراد سے ملنے اور ان کی کہانیاں سننے پر اکساتا رہتا ہے۔ اسی لیے ہمیشہ کی طرح بات چیت میں پہل کرتے ہوئے میں نے پوچھا، ’’پاکستانی ہو؟‘‘ جواباﹰ اس نوجوان نے چونکتے ہوئے پنجابی لہجے میں جواب دیا کہ ’’جی پاکستان‘‘ میرا اگلا سوال تھا ’’کس علاقے سے؟‘‘ جواب ملا ’’گوجرانوالہ‘‘۔ کچھ مزید گفتگو کے بعد میں نے بھی پنجابی زبان میں بات چیت شروع کی تو وہ کافی بااعتماد دکھائی دیا۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام مشتاق ہے اور وہ اپنے تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گجرات کے ایک ایجنٹ کو تین لاکھ روپے فی کس ادا کر کہ عیدالفطر کے ایک اگلے روز پاکستان سے روانہ ہوئے تھے۔

اس نے بتایا کہ انہیں ایران کے راستے ترکی پہنچنے میں تین دن لگے۔ پہلے ایک ماہ تک تو وہ استنبول میں موجود انسانوں کے اسمگلروں کے ساتھیوں سے ہر روز یہی سنتے آئے کہ حالات ٹھیک ہوتے ہی انہیں ترکی کے شہر ازمیر لے جایا جائے گا جہاں سے انہیں کشتی کے ذریعے یونان روانہ کر دیا جائے گا۔ تاہم مشتاق کے بقول ایک ماہ تک مسلسل تکرار کے بعد ان کو یورپ بھجوانے کا دعویٰ کرنے والے افراد، جن میں سے ایک پاکستانی اور دو ترک تھے اچانک ہی غائب ہو گئے اور کسی بھی طریقے سے رابطے میں نہیں آ رہے تھے۔ اس صورت حال میں انہوں نے واپس پاکستانی ایجنٹ سے رابطے کی کوشش کی تو وہاں سے بھی جواب نہ ملا۔

مشتاق کا کہنا تھا کہ صورت حال کو بھانپتے ہوئے وہ اپنے مسکن سے باہر نکلے تو ان کی ملاقات بہت سے دیگر ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن اور مزید پاکستانیوں سے بھی ہوئیں۔ یہ سب لوگ بھی یورپ جاننے کے لیے آئے تھے لیکن اب ان کے پاس بھی انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اسی دوران کسی پاکستانی نے مشتاق اور اس کے ساتھیوں کو استنبول کی سبزی اور فروٹ منڈی میں مزدوری کا مشورہ دیا۔ جسے انہوں نے کچھ پس و پیش کے بعد قبول کر لیا۔

اب مشتاق اور ان کے ساتھی گزشتہ چھ ماہ سے اسی منڈی میں مزدوری کر ہے ہیں۔ یہ پاکستان ہر روز ایک گاڑی پر منڈی سے سبزی اور فروٹ لوڈ کرنے کے بعد شہر کی مختلف حصوں میں سبزی اور فروٹ کی دوکانوں پر سپلائی کرتے ہیں ۔ انہیں ایک دوکان پر مال اتارنے کے عوض تین ترکش لیرا یعنی ایک امریکی ڈالر سے کچھ کم رقم ملتی ہے۔ مشتاق کے مطابق انہیں ایک دن میں بآسانی تیس سے چالیس دوکانوں پر مال اتارنے کا کام مل جاتا ہے۔ اور تینوں دوستوں نے ائیر پورٹ کے قریبی علاقے میں ایک رہائش بھی لے رکھی ہے جس کا کرایہ چھ سو ترکش لیرا ہے جو ہر ماہ تینوں مکینوں پر مساوی تقسیم ہو جاتا ہے۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اس تارک وطن کا کہنا تھا کہ ’’ترکی میں پاکستانیوں کی بہت عزت ہے اور ہمیں کوئی بھی تنگ نہیں کرتا۔‘‘ اس سے پوچھا گیا کہ بغیر ویزا کے ترکے میں رہتے ہوئے پکڑے جانے کا ڈر نہیں لگتا؟ تو اس نے پنجابی میں جواب دیا ’’کوئی نہیں پوچھدا‘‘ یعنی کوئی نہیں پوچھتا۔ اپنے گھر والوں کے بارے میں بتاتے ہوئے مشتاق نے کہا، ’’میری دوبیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو میرے والدین کے ساتھ گاؤں میں رہتے ہیں۔‘‘

مشتاق نےبتایا کہ وہ یہاں آنے کے بعد دو مرتبہ اپنے گھر پیسے بھی بھجوا چکا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ وہ جو تین لاکھ روپے پاکستان میں ایجنٹ کو دے کر آیا تھا، کیا اس نے اتنے پیسے کما لیے ہیں؟ تو اس نے مسکراتے ہوئے پنجابی میں جواب دیا ’’ہُن تے میں پرافٹ اچ جاریا واں‘‘ یعنی اب تو میں منافع میں جارہا ہوں۔ تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی یورپ جانے کو ہی ترجیح دے گا۔ لیکن اب سے کو ئی جلدی نہیں اور وہ کوئی مناسب وقت اور حالات دیکھ کر ہی یورپ کے سفر پر روانہ ہو گا۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے