1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہورسٹ زیہوفر: میرکل کے قریب ترین اتحادی لیکن سب سے بڑے ناقد

مقبول ملک مارک ایراتھ
16 جون 2018

جرمنی میں ہورسٹ زیہوفر وہ کام کر سکتے ہیں، جو کئی دوسرے نہ کر سکے۔ وہ میرکل حکومت کے خاتمے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ زیہوفر یوں تو جرمن چانسلر کے قریب ترین سیاسی حلقوں میں شامل ہیں لیکن وہ میرکل کے سب سے بڑے ناقد بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2zgvi
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

جرمنی کو اس وقت مہاجرین کے بحران کی وجہ سے جس صورت حال کا سامنا ہے، اسے کئی ماہرین برلن حکومت کو درپیش اقتدار کے ایک بڑے بحران کا نام دے رہے ہیں۔ اس بحرانی صورت حال کے دو فریق ہیں، ایک موجودہ مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسندوں کی بڑی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی رہنما اور وفاقی چانسلر انگیلا میرکل اور دوسرے جنوبی صوبے باویریا میں سی ڈی یو کی ہم خیال چھوٹی قدامت جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو کے رہنما ہورسٹ زیہوفر، جو وفاقی وزیر داخلہ ہیں۔

دونوں ہی برلن میں مخلوط ملکی حکومت میں بڑے عہدیدار ہیں، لیکن زیہوفر حالیہ کچھ دنوں سے ایسی سیاست کر رہے ہیں کہ کئی سیاسی تجزیہ کار انہیں ’میرکل کے قریب ترین سیاسی حلقے میں شامل میرکل کے سب سے بڑے ناقد‘ کا نام دینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

کئی ماہرین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہورسٹ زیہوفر وہ کام کر دکھائیں، جسے کرنے کا سوچا تو بہت سے سیاستدانوں نے تھا لیکن کر کوئی بھی نہ سکا، یعنی میرکل کو اقتدار سے باہر کر دینا۔ اب یہی کام شاید زیہوفر کر دکھائیں گے۔

ایسا پہلی بار قریب ڈھائی سال قبل ہوا تھا کہ ملک میں پناہ کے متلاشی لاکھوں غیر ملکی تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کے نتیجے میں میرکل اور زیہوفر کے مابین اختلافات کھل کر سامنے آئے تھے۔ تب زیہوفر نے باویریا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انگیلا میرکل پر کھل کر تنقید کی تھی اور سیاسی طور پر میرکل کی حالت تقریباﹰ ایسی تھی، جیسے کسی اسکول کی طالبہ کو سرزنش کرتے ہوئے اس کے تعلیمی ادارے کا کوئی ضابطہ سمجھایا گیا ہو۔

Deutschland CSU-Parteitag Horst Seehofer & Bundeskanzlerin Angela Merkel
نومبر دو ہزار پندرہ میں سی ایس یو کے پارٹی کنوینشن کے موقع پر لی گئی ایک تصویر: چانسلر میرکل اور ہورسٹ زیہوفرتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Hoppe

تب نومبر 2015ء میں سی ایس یو کے ایک پارٹی کنوینشن سے خطاب کرتے ہوئے ہورسٹ زیہوفر نے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں تارکین وطن اور مہاجرین کی آمد کے حوالے سے حکومت کو ’زیادہ سے زیادہ کی بھی کوئی حد‘ مقرر کرنا چاہیے۔ اس کنوینشن میں ایک ہم خیال مہمان سیاستدان کے طور پر انگیلا میرکل بھی شریک تھیں، اور انہوں نے دیرپا بنیادوں پر اور ٹھوس شکل میں ایسا کوئی بھی حکومتی فیصلہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

’باویریا کا شیر‘

ہورسٹ زیہوفر نومبر 2015ء میں میرکل سے اپنی بات تسلیم نہیں کروا سکے تھے لیکن ان کا رویہ مصالحت پسندانہ کے بجائے جارحانہ زیادہ تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ قریب تین عشروں سے وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ زیہوفر چانسلر ہیلموٹ کوہل کی حکومت میں وزیر صحت رہے تھے، میرکل کی قیادت میں پہلی جرمن حکومت میں وزیر زراعت اور پھر اس کے بعد 2008ء میں وہ باویریا کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔

جرمنی میں اتنے زیادہ تجربہ کار سیاستدان کم ہی ہیں، جنہوں نے اتنے زیادہ مختلف اور متنوع عہدوں پر کام کیا ہو۔ اسی لیے اس وقت 69 سالہ زیہوفر تو یہ جانتے ہی نہیں کہ اپنی ذات پر شک و شبہ کرنا کس کو کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے ہاں خود اعتمادی کا کوئی فقدان نہیں ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ زیہوفر کا تعلق جرمنی کے اس جنوبی صوبے سے ہے، جس کا نام ہی ’فری اسٹیٹ آف باویریا‘ ہے۔ ریاست باویریا اپنی مجموعی قومی پیداوار کے لحاظ سے وفاقی جرمن صوبوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ وہاں کے اسکول بہترین ہیں، گاڑیاں جدید ترین اور انتہائی تیز رفتار، ملک کی بہترین بیئر بھی باویریا سے ہے اور پھر باویریا کے ریاستی نشان میں ’شیر‘ کا موجود ہونا۔ انہی سب باتوں کی وجہ سے زیہوفر بھی خود کو ایک ’باویریئن شیر‘ ہی سمجھتے ہیں۔

’ہم خیال جماعتیں‘

باویریا کے وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے کئی سالہ دور اقتدار میں زیہوفر نے کئی بار سیاسی حوالے سے مختلف امور پر اپنا پالیسی تبدیل کی، لیکن ان کی ساکھ خراب نہ ہوئی۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ باویریا مجموعی طور پر جرمنی کا ایک انتہائی قدامت پسند صوبہ ہے لیکن وہاں اس بات سے بھی کسی کو کوئی زیادہ فرق نہ پڑا، جب یہ پتہ چلا کہ ہورسٹ زیہوفر ایک ایسے بچے کے باپ بھی ہیں، جس کی والدہ ان کی بیوی نہیں ہیں۔

میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور زیہوفر کی پارٹی سی ایس یو کے درمیان وفاقی جرمن پارلیمان میں ایک مشترکہ پارلیمانی حزب قائم کرنے کی روایت 1949ء سے چلی آ رہی ہے۔ انتخابات کے زمانے میں یہ روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے کہ سی ڈی یو پورے ملک میں اپنے انتخابی امیدوار کھڑے کرتی ہے سوائے باویریا کے، جبکہ سی ایس یو صوبائی اور وفاقی پارلیمانی انتخابات میں صرف باویریا میں ہی اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہے۔ یوں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی حلیف بھی ہیں اور اردو میں ایک دوسرے کی ’ہم خیال جماعتیں‘ اور انگریزی میں ایک دوسرے کی ’سِسٹر پارٹیز‘ کہلاتی ہیں۔

اب ان ’بہنوں‘ کے مابین کھچاؤ اور اختلاف رائے اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ ’بڑی بہن‘ سے ’چھوٹی بہن‘ ناراض ہے اور ’چھوٹی بڑی کے کہنے ہی میں نہیں آ رہی‘۔ اسی پس منظر میں زیہوفر نے بنڈس ٹاگ یعنی وفاقی جرمن پارلیمان میں ملکی وزیر داخلہ کے طور پر حال ہی میں یہاں تک کہہ دیا، ’’میرے پاس ایسا کوئی سماجی رومانوی فہم نہیں ہے کہ جو تارکین وطن جرمنی میں جرائم کے مرتکب ہوئے ہوں اور جرمنی میں امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا سبب بنے ہوں، انہیں اس ملک میں رہنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ نہیں، ایسے تارکین وطن اور مہاجرین کا ملک بدر کیا جانا لازمی ہونا چاہیے۔‘‘

اسی لیے کئی ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر پہلے اگر چانسلر میرکل سے اختلاف کرتے تھے، تو آج وہ میرکل حکومت کے لیے اس کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک خطرہ بن چکے ہیں، حالانکہ میرکل بھی اب تک اپنے موقف میں کسی بڑی لچک پر تیار نہیں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں