ہنگری ميں انتخابات، اميگريشن اہم ترين موضوع
8 اپریل 2018مشرقی يورپ کے ملک ہنگری ميں آٹھ اپريل کو عام انتخابات ميں رائے دہی کا عمل جاری ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترين جائزوں کے مطابق وزير اعظم وکٹور اوربان کی دائيں بازو کی جماعت ’فيدس‘ کو اپنی قريب ترين حريف انتہائی دائيں بازو کی جوبک پارٹی پر کم از کم بيس پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ اوربان نے اپنی اہليہ کے ہمراہ دارالحکومت کے نواح ميں اتوار کی صبح ووٹ ڈالا۔ اس موقع پر بات چيت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہنگری ايک ايسا ملک ہے، جو اپنے ليے ہميشہ خود کھڑا ہوا ہے اور اسی ليے ہم لوگوں پر اعتماد کر سکتے ہيں کہ وہ صحيح فيصلہ کريں گے۔ ميں عوام کا فيصلہ تسليم کروں گا۔‘‘
ہنگری ميں ان انتخابات ميں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد 7.9 ملين ہے۔ پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے سے جاری ہے اور يہ شام سات بجے تک جاری رہے گا۔ ابتدائی غير حتمی نتائج پولنگ ختم ہونے کے دو گھٹنے بعد متوقع ہيں۔
ان انتخابات پر يورپی يونين حکام بڑی دلچسپی کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہيں۔ ہنگری ميں ذرائع ابلاغ اور عدليہ پر قدغنيں اور سول سوسائٹی کے خلاف کريک ڈاؤن چند ايسے عوامل ہيں جن کی وجہ سے اوربان اور برسلز حکام کے مابين اختلافات پائے جاتے ہيں۔ پچھلے کچھ عرصے ميں بوداپسٹ حکومت نے بالخصوص ان اداروں کو نشانہ بنايا ہے، جنہيں ہنگری نژاد امريکی جارج سوروس کی مالی معاونت حاصل ہے۔ اوربان سوروس پر الزام عائد کرتے ہيں کہ ان کی معاونت سے چلنے والے ادارے، ہنگری کی مسيحی شناخت کو متاثر کرتے ہوئے مسلمان ملکوں اور افريقہ کے خطے سے وسيع پيمانے پر ہجرت کو فروغ دے رہے ہيں۔
مہاجرين کے معاملے پر بھی ہنگری کے وزير اعظم وکٹور اوربان کافی سخت موقف رکھتے ہيں۔ اس سال فروری ميں ان کے چند متنازعہ بيانات کے نتيجے ميں اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق سے متعلق محکمے کے سربراہ زيد رعد الحسين نے انہيں ’نسل پرست اور اجنبيوں سے خوف‘ کا شکار قرار ديا تھا۔ مہاجرين کی منصفانہ بنيادوں پر کوٹے کے تحت تقسيم کے حوالے سے طے پانے والی ڈيل کی بھی اوربان سخت مخالفت کرتے آئے ہيں، حتیٰ کہ انہوں نے اسے يورپی عدالت ميں چيلنج بھی کيا۔
دوسری جانب ان کی حکومت کا کہنا ہے کہ اوربان کے پچھلے دو مسلسل ادوار ميں اقتصادی ترقی نماياں رہی اور تنخواہوں ميں اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔ ان کی حکومت کا موقف ہے کہ اگر اوربان مسلسل تيسری مرتبہ وزير اعظم منتخب نہيں ہوتے، تو ملک ميں جاری معاشی ترقی کا تسلسل رک سکتا ہے۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں